226

استحکام کیوں نہیں۔۔۔؟

ملین ڈالر سوال ہے کہ پاکستان میں استحکام کیوں نہیں ہم پون صدی گزارنے کے باوجود عدم استحکام کا شکار کیوں ہیں، پاکستان میں نظام جڑیں کیوں نہیں پکڑ پا رہا یہ پہلے والے سوال کے سپلیمنٹری سوال ہیں پہلے کے معاملات ہم نے سن رکھے ہیں پڑھے ہوئے ہیں لیکن 80 کی دہائی سے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ 1988 سے عملی صحافت کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی واقعات کا عینی شاہد ہوں ہم نے 25 سالوں میں اختیارات کی چھینا جھپٹی میں آدھا ملک گنوا دیا ملک کو عارضی بنیادوں پر چلایا جاتا رہا ہم نے آئے روز ملک کے اتنے چیف ایگزیکٹو بدلے کہ انڈین قیادت ہمیں طعنے دینے لگی کہ ہم اتنی دھوتیاں نہیں بدلتے جتنے تم نے وزیراعظم بدل لیے ہیں ملک بننے کے 10سال بعد مارشل لاء لگ گیا اور وزیر اعظم کا عہدہ ملک ٹوٹنے تک معطل رہا ہم نے ملک ٹوٹنے سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور آج تک اسی روش پر چل رہے ہیں جمہوریت کے 7سال روتے پیٹتے گزرے جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا ختم نبوت سمیت اہم معاملات پر قانون سازی کی لیکن مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اینٹ کھڑکا ہی رہا ذوالفقار علی بھٹو کو زعم تھا کہ وہ بہت مقبول لیڈر ہیں اس لیے انھوں نے معینہ مدت سے ایک سال قبل ہی الیکشن کروا دیے عوامی اتحاد نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ملک بھر میں احتجاج شروع کردیا وہ احتجاج اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ آخر کار جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء پر منتج ہوا انتخابات سے پیدا ہونے والا خلفشار مارشل لاء کے بعد بھی ختم نہ ہوا ملک مسلسل عدم استحکام سے دوچار رہا مارشل لاء میں پیپلزپارٹی کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا رہا سیاسی انتشار نےبھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا پارٹی کے عہدیداروں سمیت ورکرز کو قید جلا وطنی سمیت بڑی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ضیا الحق بلا شرکت غیرے 11 سال تک اقتدار پر براجمان رہے ان کی طیارہ حادثہ میں موت سے ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور بے نظیر بھٹو کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی لیکن ہر دو آڑھائی سال بعد ٹوٹتی بنتی حکومتوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ضیا الحق کے مارشل لاء کے اثرات 1997 تک برقرار رہے 1997 کے انتخابات میں عوام نے میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ دیا جس سے اسمبلیاں توڑنے کے قانون کا خاتمہ کیا گیا ضیا الحق کے مارشل لاء کے خاتمہ کے ساتھ ہی جمہوریت کے لیے تگ ودو کرنے والے سیاستدانوں کی لڑائیاں دوبارہ شروع ہو گئیں میاں نواز شریف دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار برقرار نہ رکھ سکے اور 1999 میں ایک بار پھر مارشل لاء لگوا بیٹھے جانوروں کی طرح لڑنے والے سیاستدان اب ایک ہی ٹرک میں سوار ہو کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے لگے دلچسپ امر یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد سیاستدانوں نے حسب روایت پھر لڑنا شروع کر دیا اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ جمہوری دور کا وقت پورا ہو چکا ہے یا ہمارے سیاستدانوں کواقتدار میں لوٹ مار سے اپھارا ہو گیا ہے جو لڑائی کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ جہاں سے ایک بار پھر مارشل لاء کی راہیں ہموار ہونا شروع ہو گئی ہیں اللہ نہ کرے ملک میں ایسا وقت آئے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے کسر کوئی نہیں چھوڑی پی ڈی ایم کی حکومت چاہتی ہے کہ بے شک سسٹم میں دو تین سال کی بریک آجائے لیکن عمران خان نہ آئے سیاستدانوں کی اسی ہٹ دھرمی نے ملک کو تین مارشل لاوں کی نذر کیا یہ آپس میں بات کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ سے معاملات کو نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں یہ غیبی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں ان کے آلہ کار بن کر پرفارم کرتے ہیں اور پھر مل بیٹھ کر روتے ہیں پھر جدوجہد کرکے سسٹم کو ٹریک پر لاتے ہیں اور جب سسٹم ٹریک پر آجاتا ہے تو پھر اسے ڈی ٹریک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اسی چپقلش اور بلی چوہے کے کھیل سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے سیاستدانوں کو عوام سے زیادہ غیبی طاقتوں پر اعتماد ہے اسی وجہ سے ہر کوئی باآسانی ان کے کھیل کا حصہ بن جاتا ہے خدارا اب بہت ہو چکی اب فیصلہ کر لیں کہ اس ملک میں کونسا سسٹم چلنا ہے اور ملک کو چلنے دیں ہم نے عجیب تماشہ لگایا ہوا ہے پہلے محنت کر کے سیاسی سسٹم کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں جب نظام ذرا سی جڑیں پکڑنے لگتا ہے تو ہم محنت کرکے جڑیں کاٹنا شروع کر دیتے ہیں ہم تاریخ سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھتے ضیا الحق نے پیپلزپارٹی کو ڈمیج کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن جونہی جمہوریت بحال ہوئی بےنظیر کو وزیر اعظم بننے سے کوئی نہ روک سکا عمران خان آج کا بھٹو ہے وہ بھٹو سے زیادہ عوامی مقبولیت کا حامل سیاستدان بن چکا ہے اسے کسی شارٹ کٹ کے ذریعے سسٹم سے نکالنے کی کوشش نہ کریں اگر آپسی لڑائیوں کی وجہ سے تعطل آ بھی گیا تو عمران خان رہے یا نہ رہے الیکشن فوری ہوجائیں 2سال بعد ہوں 5سال بعد ہوں جب بھی الیکشن ہوں گے تحریک انصاف جیت جائے گی ہر کسی کو فطری عمل کے ذریعے آوٹ ہونا چاہیے جب آپ غیر فطری طریقے سے کسی کو آوٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مظلوم بن کر دوبارہ آجاتا ہے مشکل مشکل سے سسٹم نے دو جماعتوں کو ایکسپوز کیا ہے تیسری کو موقع دیں اگر اس نے پرفارم نہ کیا تو ازخود عوام اسے آوٹ کر دیں گے اگر پی ڈی ایم رجیم چینج کا حصہ نہ بنی ہوتی اور تحریک انصاف کو معینہ مدت پوری کرنے دی جاتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے پی ڈی ایم ایک غلطی پہلے کرچکی اور دوسری عمران خان کا غیر فطری طریقے سے راستہ روک کر کر رہی ہے فرض کریں عمران خان موجودہ الیکشن جیت جاتا ہے تو اگلے پانچ سال کے بعد پی ڈی ایم کی باری آ جائے گی لیکن اگر کوئی تعطل آگیا تو 8،10 سال اس میں گزر جائیں گے اور اس کے بعد پھر تحریک انصاف کو کوئی نہیں روک سکے گا اس طرح پی ڈی ایم کو 15 سال انتظار کرنا پڑے گا اور ملک مسلسل حالت نزاع میں رہے گا ہم پہلے ہی 75 سال ضائع کر چکے ہیں خدارا ہماری آنے والی نسلوں پر رحم کھائیں ہم نے تو جیسے تیسے رو پیٹ کر زندگی گزار لی ہے آنے والوں کے لیے تو درست سمت فراہم کر جائیں اور آخری بات جو ہمارے کرتوت ہیں ایسے کرتوتوں سے ریاستیں نہیں چلا کرتیں ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں اور باقی کا بیڑا غرق کیے بیٹھے ہیں اگر ہم نے درست فیصلے نہ کیے تو ہمارا کوئی مستقبل نہ ہو گا آگے آپ کی مرضی ہے