204

شاہی محلات کی تزئین و آرائش کیوں ضروری ہے؟

لندن آنے والے سیاحوں کے لئے اس شاندار شہر میں اور بہت سے تفریحی مقامات کے علاوہ ایک تاریخی اور منفرد عمارت ایسی بھی ہے جس کی کشش گذشتہ کئی صدیوں سے قائم ہے۔ برطانوی دارالحکومت کے وسط میں ایستادہ یہ عمارت بکنگھم پیلس یعنی قصرِ بکنگھم ہے جس کی شان و شوکت کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ برطانیہ آتے ہیں۔ ویسے تو پوری دنیا میں ہزاروں محل ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود سینکڑوں برس پہلے ان محلات کی تعمیر اور تزئین کس طرح ممکن ہوئی ہو گی۔ میں نے اپنی زندگی میں جو پہلا محل دیکھا وہ بہاول پور کا نور محل تھا جو اپنی طرزِ تعمیر کے اعتبار سے ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔ اس کی تعمیر 1875ء میں مکمل ہوئی تھی اور یہ شاندار محل آج بھی اچھی حالت میں بہاول پور کے تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ ہے۔ بکنگھم پیلس کے بعد 1994ء میں مجھے جس محل کو دیکھنے کا موقع ملا وہ فرانس کا ورسائی محل یعنی (PALACE OF VERSAILLES) تھا۔ پیرس شہر میں واقع یہ کشادہ محل، اس کے باغات اور جھیلیں واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔تقریباً ساڑھے چھ ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے اس محل میں 400مجسمے مختلف مقامات پر آویزاں ہیں اور یہاں ایک ہزار 4سو فوارے نصب ہیں۔ اس محل کا ہال آف مررز ”HALL OF MIRRORS“ اس لئے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں 357قد آدم آئینے، فانوس، شیشے کے مجسمے اور نایاب تصاویر(پینٹنگز) لگی ہوئی ہیں۔ موسم بہار میں اس محل کو دیکھنا ایک نہ بھولنے والا تجربہ ہوتا ہے لیکن پت جھڑ کے دِنوں میں بھی اس کے باغات کی راہداریاں اور گزرگاہیں، پیلے، نارنجی اور سرخ پتوں سے اٹ جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ خزاں کا موسم اپنی آمد کا اعلان کر رہا ہے۔ کئی صدی پہلے کے حکمران اور بادشاہ اپنے لئے جو محلات تعمیر کرواتے تھے اُن کے اردگرد سبزہ زار اور باغات لگانے کا اہتمام ضرور کرتے تھے۔ لندن کے شاہی محل بکنگھم پیلس سے بھی دو بڑے تاریخی پارک ملحق ہیں۔ سینٹ جیمز پارک اور گرین پارک کو وسطی لندن کے دو بہت ہی پُرفضا سبزہ زاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 1603ء میں بنایا جانے والا سینٹ جیمز پارک 157ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جبکہ گرین پارک کی وسعت 47ایکڑ ہے۔ بکنگھم پیلس برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ ابتداء میں اس عمارت کو 1703ء میں ڈیوک بکنگھم کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جسے بکنگھم ہاؤس کہا جاتا تھا۔ 1761ء میں کنگ جارج سوئم نے اسے کوئین شارلٹ کے لئے خرید لیا اور اسے کوئین ہاؤس کا نام دیا گیا۔کنگ جارج چہارم کے دور میں اسے باقاعدہ محل کا درجہ حاصل ہوا جس کے بعد سے اب تک یہ بکنگھم پیلس کہلاتا ہے۔ 1837ء میں ملکہ وکٹوریہ اس محل میں رہائش پذیر ہوئیں اور یہ عمارت تب سے شاہی مصروفیات کا مرکز ہے۔ یہ محل 775کمروں پر مشتمل ہے جن میں 52کمرے شاہی خاندان کے افراد اور اُن کے مہمانوں کے لئے مختص ہیں۔ 39ایکڑ کے اس محل کی سیکورٹی کے انتظامات بہت سخت ہیں۔ شاہی گارڈز اور میٹروپولیٹن پولیس کے اہلکار ہمہ وقت اس کی نگرانی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود 1982ء میں مائیکل فاگن نامی ایک شخص سیکورٹی کے تمام عملے کو چکمہ دے کر ملکہ برطانیہ کی خواب گاہ یعنی بیڈروم تک پہنچ گیا تھا۔ جولائی سے ستمبر تک جب شاہی خاندان کے افراد اور ملکہ یا بادشاہ محل میں قیام پذیر نہیں ہوتے تو اس کے شاندار اور سجے ہوئے 19سٹیٹ رومز کو سیاحوں کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ اس محل کا 37میٹرلمبا، 18میٹر چوڑا اور ساڑھے تیرہ میٹر اونچا بال روم اپنی طرز کا منفرد بال ہے۔ یہ انتہائی قیمتی اشیاء سے مزین ہے اور یہاں دنیا بھر کے اہم شاہی مہمانوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔ یہ بال روم برطانیہ کے شاہی خاندان کی شان و شوکت کا شاہکار ہے۔ اسے ملکہ وکٹوریہ نے تزئین و آرائش کے بعد 1857ء میں شاہی مہمانوں کی میزبانی کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ بکنگھم پیلس میں 4 ٹن وزنی سونے کی وہ بگھی(GOLD STATE COACH) بھی موجود ہے جسے 1762ء میں جارج سوئم نے بنوایا تھااور جس کو 1821ء کے بعد سے اس وقت استعمال میں لایا جاتا ہے جب برطانوی ملکہ یا بادشاہ کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے اور اس بگھی کو 8 طاقتور گھوڑے کھینچتے ہیں۔ اسی طرح محل میں موجود ملکہ وکٹوریہ کا گولڈ پیانو، پکچر گیلری، قیمتی فانوس، شاہی خاندان کی پورسلین کی کولیکشن اور میوزک روم بھی سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ بکنگھم پیلس کے باغیچے، جھیل اور سبزہ زار بھی سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ یہاں 30مختلف طرح کے پرندوں کا بسیرا ہے جبکہ 150نایاب درخت اور 322اقسام کے منفرد برطانوی جنگلی پھول محل کے رائل گارڈن کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ بکنگھم پیلس کے گائیڈڈ ٹور کی ٹکٹ اِ ن دنوں 90پاؤنڈ اور اپنے طور پر محل کے مخصوص حصوں کو دیکھنے کی ٹکٹ کی مالیت 33پاؤنڈ ہے۔ جب کسی خاص موقع پر لوگ اس شاہی محل کے باہر جمع ہوتے ہیں تو بکنگھم پیلس کی بالکونی پر آ کر شاہی خاندان کے افراد اور سربراہ ہاتھ ہلا کر اُن کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس محل میں ہر سال تین ایسی گارڈن پارٹیز کا اہتمام ہوتا ہے جس میں پورے برطانیہ سے مختلف شعبوں کے تقریباً 8ہزار خاص مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ جب بکنگھم پیلس پر شاہی خاندان کا مخصوص جھنڈا لہرا رہا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بادشاہ محل میں موجود ہے۔ بصورت دیگر برطانوی پرچم(یونین چیک) محل کی چوٹی پر لہراتا رہتا ہے۔بکنگھم پیلس کے اندر ایک پولیس اسٹیشن، پوسٹ آفس، سینما، ہیلتھ کلینک اور سوئمنگ پول کے علاوہ اور بہت کچھ موجود ہے کیونکہ اس محل میں تقریباً 500لوگ کل وقتی ملازم ہیں جن کے لئے 92آفس اور 188سٹاف بیڈ رومز شاہی محل کے اندر ہی موجود ہیں۔

جو آخری محل میں نے چند برس پہلے دیکھا وہ بہاول پور کی تحصیل احمد پور رقیہ میں صادق گڑھ پیلس تھا۔ بیرونی سٹرکچر کو دیکھنے سے یہ عمارت ایک محل دکھائی دیتی ہے لیکن اندر سے بالکل کھنڈر بن چکی ہے جس کے ہر حصے کو ویرانی اور خستگی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں نواب آف بہاول پور کا دربار لگتا تھا۔ اس کے فرش قیمتی قالینوں سے مزین تھے، چھتوں سے قیمتی فانوس روشنیاں بکھیرتے تھے، دیواروں پر نایاب تصاویر لگی ہوئی تھیں،ہیرے جواہرات سے سجے تاج اور تلواروں کی نیامیں محل کی زینت تھیں،اس کے ماتھے پر ریاست بہاول پور کا جھنڈ الہراتا تھا، مرکزی درازے پر دربان مستعد کھڑے ہوتے تھے،اس محل کی لائبریری میں علمی خزانے موجود تھے،یہ محل بھی اپنے نواب کی شان و شوکت کا شاہکار تھا، شاندار تھا، پروقار تھا۔ اس کے باغیچے میں بہار آتی تھی، پھول کھلتے تھے، اس کے فوارے رم جھم کا گیت سناتے تھے، اس کے درختوں پر پرندے چہچہاتے تھے۔ 125ایکڑ رقبے پر محیط اس محل میں رونق اور شادمانی کا غلبہ تھا۔ یہ جگہ خیر اور برکت کی آماجگاہ تھی مگر اب یہ جگہ، یہ محل عبرت سرائے دہر ہے جو ریاست بہاول پور کی تباہی و بربادی اور سر صادق عباسی کے پسماندگان کی نااتفاقی اور خودغرضیوں کی علامت ہے۔صادق گڑھ پیلس کی ہر قیمتی چیز چرا لی گئی ہے یہاں تک کہ دروازوں کے قبضے اور چٹخنیاں تک کاٹ کر فروخت کر دی گئی ہیں، لائبریری سے نایاب کتب اور مخطوطات ردی کے بھاؤ بیچ دیئے گئے ہیں۔ 1882ء میں 120کمروں پر مشتمل یہ عالیشان محل جب بنوایا گیا تھا تو کسے معلوم تھا کہ ایک صدی بعد یہاں صرف سناٹے اور ویرانی کا بسیرا ہو گا، بے بسی اور حسرت کا راج ہو گا۔ صادق گڑھ پیلس کی حالت زار دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کی تہہ میں اپنے شاندار ماضی کی داستان سنانے کے لئے رہ گیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بکنگھم پیلس کی رعنائیاں دیکھ کر مجھے بے ساختہ اپنے بہاول پور کے صادق گڑھ پیلس کا خیال آنے لگتا ہے لیکن کیا کیا جائے۔

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

٭٭٭٭٭٭