یونائیٹڈ کنگڈم میں شادی کرنے کے رجحان میں و قت گزرنے کے سا تھ ساتھ کمی واقع ہو رہی ہے۔ انگریزوں کی ایک بڑی تعداد شادی کے بغیر ہی ایک دوسرے کے ساتھ پارٹنر یعنی بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے طور پر رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ برطانیہ میں تقریبا 24 فیصد جوڑے ایسے ہیں جو شادی کے بندھن میں بندھے بغیر اکٹھے رہتے اور”ازدواجی زندگی“ گزارتے ہیں۔ گورے یا انگریز لوگ (مرد اور عورتیں) شادی کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ اس کی کئی و جوہ اور اسباب ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ شادی کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر ہمہ وقت سوار نہیں رکھنا چاہتے اور اپنی شخصی آزادی کو قربان کرنے کا رسک نہیں لیتے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت زندگی کی یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرتی ہے اور ساری زندگی ایک ہی شخص کے ساتھ گزارنے کو انسانی نفسیات کے منافی سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کی نئی نسل اب اس لئے بھی شادی کے جھنجٹ میں نہیں پڑتی کہ علیحد گی یا طلاق کی صورت میں ا نہیں اپنے شوہر یا بیوی کو اپنے اثاثوں اور جائیداد کا نصف حصہ دینا پڑے گا۔ انگریزوں کے طرز معاشرت میں ٹین ایج (Teen Age) سے ہی بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ بنانے کا رواج ہے پچیسں اور تیس سال کی عمر تک ہر گورے لڑکے اور لڑکی کی زندگی میں کئی طرح کے فرینڈز اور پارٹنر بن چکے ہوتے ہیں اس لئے وہ شادی کر کے اپنے پاؤں میں کسی مستقل ذمہ داری کی زنجیر نہیں ڈالتے۔کسی ایک دوست سے دل بھر جانے یا اکتاہٹ کا شکارہونے پر وہ کوئی نیا ساتھی تلاش کر لیتے ہیں۔ انگریز کسی ایک ہی شخص کو عمر بھر محبوب بنائے رکھنے پر یقین نہیں رکھتے . بہت سے لوگ اپنی شخصی آزادی اور بے فکری کو انجوائے کرنے کے لئے ملکوں ملکوں گھومتے ہیں، ملازمت اور کاروبار کے لئے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بیوی بچوں والے شخص کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
شادی کا کلچر سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے جس طرح مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر عرب کلچر میں چار شادیوں کا رواج بہت عام ہے اسی طرح مغرب اوربر طا نیہ میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور بچے پیدا کرنے کا کلچر بھی یہاں کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔ کئی جوڑوں کے ہاں شادی کے بغیرہی کئی بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔لندن اور دیگر شہروں میں ہزاروں بن بیاہی مائیں ایسی بھی ہیں جن کے ایک سے زیادہ بچے ہیں لیکن ہر بچے کا باپ کوئی ایک شخص نہیں ہے یعنی چار بچے چار مختلف بوائے فرینڈز سے مباشرت کی پیداوارہیں ایسے بچوں کویہاں (LOVE CHILD) کہا جاتا ہے۔
گورے اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں یہ لوگ اپنے جوڑ ے خود بناتے اور بوقت ضرورت اپنےجوڑے کو تبدیل کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ لوگ اس حسرت میں بھی ٹھنڈی آہیں نہیں بھرتے کہ انہیں سچا پیار نہیں ملا۔ گورے نسبتاً حقیقت پسند ہوتے ہیں یہ لوگ شادی اور تعلق کی چیونگ گم کو کر اس وقت تک چباتے ہیں جب تک اس میں مٹھاس اورذائقہ برقرار رہتا ہے۔ انگریزمیاں بیوی یا پارٹنر ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد اپنے مشترکہ بچوں کے”مستقبل“کے لئے اپنے”حال“ کو داؤ پرنہیں لگاتے، ماں یا باپ میں سے جو بھی بچوں کو اپنے پاس رکھتا ہے اُسے حکومت کی طرف سے ان کی نگہداشت کا الاؤنس ملتا ہے اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی ان بچوں کو اپنے پاس نہ رکھنا چاہے تو یہ بچے فوسٹر پیرنٹس یاسوشل سروسز کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔ علیحدگی یا طلاق کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کی جان کے دشمن نہیں بنتے بلکہ پرانے تعلق کے ایک بھرم کو نبھانے کی کوشش کرتے ہیں ویسے بھی شادی اور تعلق میں بھروسہ اور اعتماد لازم و ملزوم ہوتے ہیں دھوکہ دینے سے دھکا دینا زیادہ بہتر ہے۔ بہت سے انگریز ایک شادی یا تعلق کے ختم ہونے پر تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور کتے بلیاں یا کوئی اور جانور اور پرندے پال کر اپنے اس اکیلے پن کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیوی کے ستائے ہوئے کسی انگریز سے ایک شخص نے پوچھا کہ کتے شادی کیوں نہیں کرتے؟ تو اس نے بیزار ہو کر جواب دیا“اس لئے کہ وہ شادی کے بغیر ہی کتوں والی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں“، انگریزوں کو برطانیہ میں آباد مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی کی ارینجڈ میرج یا فورسڈ میرج پر بڑی حیرانی اور تشویش لاحق ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آتا کہ کسی بالغ شخص کی شادی کا فیصلہ اس کی اپنی مرضی کی بجائے اس کے والدین یابزرگ کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ تو ان دو لوگوں کو کرنا چاہیے جنہوں نے اپنی آ ئندہ زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو اپنی نئی نسل کی شادی بیاہ کے معاملے میں واقعی کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یو کے میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے رشتے پاکستان میں تلاش کئے جاتے تھے لیکن بہت سی ارینجڈ اور بے جوڑ شادیوں کی ناکامیوں کے بعد اب پاکستانی تارکین وطن کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولادوں کے لئے رشتے بھی یو کے میں ہی تلاش کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک خر بوزے کو دیکھ کردوسرا خربورہ بھی رنگ پکڑتا ہے اس لئے ایشین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اب اپنی آزادی اور خود مختاری کو زیادہ سے زیادہ انجوائے کرنے کے لئے شادی کے چنگل میں پھنسنے سے گریز کرتے ہیں خاص طور پر ایسے نوجوان جو اپنے گھر میں والدین کی نوک جھونک یا ڈومیسٹک وائلنس (گھر یلوتشدد) کے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ شادی کے نام سے بدک جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں گھر یلو تشدد ایک بہت ہی سنگین سماجی مسئلہ ہے جس کی بنیادی وجہ شراب نوشی ہے۔ شادی شدہ جوڑوں یا پارٹنرز کی اکثریت شراب نوشی کے بعد آپے سے باہر ہو جاتی ہے اور معاملات تلخ کلامی سے جسمانی تشدد اور مار کٹائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ برطانیہ میں ڈومیسٹک وائلنس کو ایک سنگین جرم قرار دیا جاتا ہے انگریز لڑکیاں اور عورتیں اپنے شوہریا پارٹز کی طرف سے کسی بھی طرح کے نفسیاتی اور جسمانی تشدد کو برداشت نہیں کرتیں اور اگر ایساہو تو فوراً پولیس بلا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کے مجازی خدایا لائف پار ٹنر کو حوالات یا جیل کی ہواکھانی اور عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انگریز بیویاں پاکستانی عورتوں کی طرح شوہروں سے مارکھا کر اپنی شادی توبچانے کے لئے کسی مصلحت سے کام نہیں لیتیں بلکہ ہتھ چھٹ شوہروں کو اُن کے کرتوتوں کا”مزہ“ چکھاکر چھوڑتی ہیں۔
انگلینڈ اور ویلز میں گزشتہ ایک سال کے دوران گھر کو تشدد کے 23 لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سات لاکھ 12 ہزار واقعات ایسے تھے جن میں بیویوں نے اپنے شوہروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بیویاں ہی مظلوم نہیں ہوتیں بلکہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک میں شوہر بے چارے بھی ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ یو کے میں مظلوم بیویوں اور گھر یلو تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے لئے کی مدد کے لئے بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں فعال ہو کر کام کر رہی ہیں لیکن اس ملک میں ابھی تک کوئی ایسی آرگنا ئزیشن یہاں قائم نہیں ہوئی جو مظلوم شوہروں کو بیویوں کے ظلم اور تشدد سے بچانے یا ڈومیسٹک وائلنس کے اثرات سے نکالنے کے لئے سرگرم عمل ہو، گورے کہتے ہیں کہ عورتیں اس لئے خوش نصیب ہوتی ہیں کہ اُن کی کوئی بیوی نہیں ہوتی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ اور رویوں میں بھی بہت تبدیلی آئی ہے۔ کئی دہائیاں پہلے تک پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن اپنی جوان اولادوں کے لئے منگیتر امپورٹ کیا کرتے تھے یعنی اپنے قریبی عزیز رشتے داروں میں شادیاں کر کے پاکستان اور کشمیر سے اپنی بہو یا داماد کو سپاوس ویزے پر برطانیہ لاتے تھے۔سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے یو کے آنے والے یہ منگیتر اپنے سسرالیوں اور شریک حیات کے ہرطرح کے ظلم اور زیادتی کو خاموشی سے برداشت کئے چلے جاتے تھے تاکہ شادی کا بندھن قائم رہے اب یہ سوچ یکسر تبدیل ہو چکی ہے،سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اب گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے خواتین و حضرات اپنے حقوق سے آگاہ ہو چکے ہیں وہ زندگی بھر ظلم سہنے کی بجائے ایک ہی بار شادی کے بندھن ٹونے کا دکھ برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانی جس برطانوی معاشرے کا حصہ ہیں اس کے سماجی اثرات اُن کی نئی نسل پر بھی ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ انگریزوں کی طرح مسلمانوں اور پاکستانیوں کی نئی نسل بھی شادی بیاہ کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے سے کتراتی اور گھبراتی ہے اور اپنی شخصی آزادی کو زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ اس سوال پر غور کرنے کی بجائے کہ انگریز شادی کیوں نہیں کرتے؟ اب تمہارے لوگ اس المیے پر زیادہ فکر مند رہنے لگے ہیں کہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کی نئی نسل شادی سے کیوں کترانے اور گریز کرنے لگی ہے؟
شادی اپنی جگہ ایک سماجی اور جسمانی ضرورت سہی لیکن کسی دانشور نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ آدمی شادی کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اصل خوشی کیا ہوتی ہے یہ الگ بات کہ تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ویسے بھی جوڑوں کا درد صرف جوڑے ہی جانتے ہیں
٭٭٭