364

ملک وقوم پراصل بوجھ کون۔۔؟

ہم نے خیبرپختونخواکے ایک پسماندہ ضلع بٹگرام میں آنکھ کھولی ، پسماندگی میں آج بھی اس ضلع کاکوئی ثانی نہیں،یہاں سڑکوں،کھنڈرنماسرکاری بلڈنگوں اورپانی کے زنگ آلودپائپوں سمیت آثارقدیمہ کے رتبے تک پہنچنے والے دیگرمقامات وآلات کانظارہ کرنے کے لئے آج بھی دوردورسے لوگ یہاں جاتے ہیں ۔برسوں کی سیاست اورریاضت کے بعدآج بھی یہاں کے لوگوں کے مسائل کچھ کم نہیں۔مسائل کاذکرخیرشروع کیاجائے توکاعذختم ہوجائیں گے لیکن یہاں کے مسائل کااحاطہ پھربھی ممکن نہیں ہوگا۔یہ ضلع برسوں سے واپڈاکے خاص نشانے پرہے۔ یہاں 24گھنٹوں میں پچیس گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ دیکھ کرایک بات ذہن میں آتی ہے کہ یایہاں کے لوگ کہیں بجلی کے بہت بڑے چورہیں یاپھریہاں برسوں سے تعینات واپڈاکے اہلکارکوئی انتہاء درجے کے کام چور۔کون چوراورکون کام چور۔۔؟یہ فیصلہ کرنے والابھی یہاں ابھی تک کوئی پیدانہیں ہوا۔اس وجہ سے شائدکہ یہ ضلع آئندہ مزیدکئی صدیوں تک اسی طرح اندھیرے میں رہے۔

بہرحال آتے ہیں اصل بات اورموضوع کی طرف۔ آنکھ کھولنے کے بعدجب ہم نے ہوش سنبھالاتوہم نے ایوب خان آلائی کو پہلے ایم این اے اوریوسف خان ترندکواپنے پہلے ایم پی اے کے روپ میں دیکھا۔اس بات کوسالوں گزرچکے ہیں۔ایوب خان آلائی اب مٹی کی چادراوڑھ کرگہری نیندسورہے ہیں اوریوسف خان ترند بھی بڑھاپے کی وجہ سے بزرگی کے دورسے گزررہے ہیں۔ایوب خان آلائی کے بعدان کے صاحبزادے پرنس نوازخان آلائی ہمارے ایم این اے بنے اورآج بھی وہ اس علاقے اورضلع سے قومی اسمبلی کے ممبرہیں ۔دوسری طرف یوسف خان ترندکی سیاسی ریٹائرمنٹ کے بعدان کے بیٹے تاج محمدخان ترندان کے سیاسی جانشین مقررہوئے اوراتفاق سے وہ بھی آج اس ضلع کے ایم پی اے ہیں۔ہمارے بچپن کے زمانے میں بھی بٹگرام کی سیاست خوانین ہی کے چارخاندانوں کے گردگھومتی تھی اورآج بھی بٹگرام میں وہی چارخاندان سیاہ وسفیدکے مالک ہیں۔آلائی خان،تھاکوٹ خان،بٹگرام خان اورترندخان۔خوانین کے یہ وہ چارخاندان ہیں جوباری باری ضلع بٹگرام پرحکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں۔باپ داداسے حکمرانی کا شروع ہونے والایہ سلسلہ بیٹوں،نواسوں اورپوتوں تک توپہنچ چکاہے ۔آگے معلوم نہیں۔اللہ جانے مزیدکہاں تک پہنچے گا۔

موروثی سیاست اورخاندانی حکمرانی یہ صرف ایک بٹگرام کامسئلہ نہیں ۔پورے ملک میں 30اورچالیس سال سے یہی ہورہاہے بعض صوبوں،اضلاع اورعلاقوں میں توسترسال سے یہ سلسلہ اوررشتہ کبھی ٹوٹابھی نہیں۔شریفوں ۔۔زرداریوں۔۔قریشیوں۔۔مخدوموں۔۔چوہدریوں اوروڈیروں کی مثالیں توسب کے سامنے ہے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ اس ملک میں برسوں سے داداکے بعدبیٹے اوربیٹوں کے بعدپوتے اورنواسے ایم این اے اورایم پی اے بن کراس ملک اورقوم کوخدمت کے نام پردونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن اس لوٹ ماراورلٹیروں کوآج تک کسی نے ،،ملک وقوم پربوجھ،،کانام نہیں دیا۔جولوگ سترسال سے اس ملک اورقوم کی جان نہیں چھوڑرہے۔انہیں نہ کوئی بوجھ کہہ رہاہے اورنہ ہی سمجھ رہاہے۔لیکن اس کے برعکس بے چارے وہ سرکاری ملازمین جن کی زندگیاں حقیقی معنوں میں اس ملک اورقوم کی خدمت کرتے ہوئے گزرگئیں۔جنہوں نے اپناسب کچھ اس ملک وقوم کے لئے دائوپر لگایا۔آج ان کے بارے میں کہاجارہاہے کہ یہ اس ملک اورقوم پربوجھ ہیں۔بوجھ وہ ہوتاہے جس کانقصان توہوفائدہ کوئی نہیں ہو۔کیاگرمی،سردی ،دن،رات اورخوشی ،غمی میں جان کی بازی لگاکرڈیوٹی کرنے والے سرکاری ملازمین سے اس ملک کوواقعی کوئی فائدہ نہیں۔۔؟ ایم این اے،ایم پی اے،وزیراورمشیراگرگھربیٹھیں ۔ملک کانظام توکئی عرصے تک چل سکتاہے لیکن کیا۔۔؟ کسی پولیس،ڈاکٹر،ٹیچر،پٹواری،انجینئر،پلمبر،الیکٹریشن،لائن مین،میٹرریڈراورخاکروب کے گھربیٹھنے سے ملک کانظام ایک دن بھی چل سکتاہے۔۔؟کسی ایک چوک سے چندمنٹ کے لئے ٹریفک اہلکاراورکسی ہسپتال کی ایمرجنسی سے ایک لمحے کے لئے ایک ڈاکٹرکواٹھاکرپھردیکھیں۔نظام کیسے چلتاہے۔۔؟

حکمرانوں اورسیاستدانوں کی طرح سرکاری ملازمین میں بھی بہت سارے لٹیرے ہوں گے۔ہم ہرگزیہ نہیں کہتے کہ سارے سرکاری ملازمین دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔اچھے برے جس طرح ہرجگہ ہوتے ہیں اسی طرح سرکاری اداروں اورمحکموں میں بھی برے لوگ ضرورہوں گے۔حکمرانوں اورسیاستدانوں کی طرح ملک وقوم پربوجھ بننے والے گنتی کے کچھ دانے یہاں بھی ہونگے لیکن ان چندموٹے موٹے دانوں اوربروں کے ساتھ ان اداروں اورمحکموں میں اچھے لوگ بھی بہت ہیں ۔جن کی کوشوں،محنت اورایمانداری ودیانتداری سے اس ملک کایہ نظام چل رہاہے۔یہاں سارے محترم حفیظ شیخ کی طرح نکمے نہیں بیٹھے ہیں۔یہ انہی سرکاری ملازمین کی محنت اورقربانیوں کاثمرتوہے کہ حفیظ شیخ جیسے لوگ آج وزیرمشیربنے پھرتے ہیں ورنہ یہ بھی آج کسی چوک اورچوراہے میں،، چوہے ماردوائی لو،چوہے ماردوائی لو،،کے نعرے لگاتے پھرتے۔ملک کاخزانہ سترسال سے کرپٹ اورچورحکمرانوں و سیاستدانوں اورحفیظ شیخ جیسے کرائے کے ایمرجنسی وزیر ،مشیر دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں لیکن اس کی کسی کوکوئی پرواہ نہیں۔جس طرح خانہ بدوشوں کاکوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔اسی طرح وقتی نوکروں اورچاکروں کابھی کوئی مقصد،منزل اورمشن نہیں ہوتا۔سال دوسال کے لئے کسی عہدے اورپوسٹ پرآنے والے تولوٹ مارضرورکرتے ہیں لیکن ڈھنگ کاکوئی کام کبھی نہیں۔جن کے ٹھکانے اورآشیانے ہی امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اوردبئی میں ہوں ۔ایسے لوگوں کااس ملک سے کی تعمیروترقی اورعوام کی خوشحالی سے کیاتعلق۔۔؟جن لوگوں نے تجوریاں بھرکرشوکت عزیزکی طرح واپس ہی پلٹناہو۔ایسے لوگ ملک کی ترقی اورکامیابی کاکیاخاک سوچیں گے۔۔؟

ہمارے ان نااہل حکمرانوں نے اس سے پہلے بھی ملک کے اکثراداروں کوخانہ بدوشوں کے حوالے کیا۔ایک اوردوسال کے لئے آج تک جوبھی آئے ۔ وہ سٹیل ملز،پی آئی اے سمیت دیگراداروں کاکباڑہ کرکے ہی گئے۔آج ملک میں پی آئی اے سمیت دیگرقومی اداروں کاجوبراحال ہے اس کاکریڈٹ بھی ان نکمے حکمرانوں کو جاتاہے۔اس ملک اورقوم پرسرکاری ملازمین سمیت جوبھی بوجھ ہے۔اس بوجھ کوملک کے ناتواں کندھوں سے ضروراتاراجائے۔ ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں۔لیکن ہماراسوال صرف یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں ملک کیلئے برسوں سے خون پسینابہانے والے اگرملک پربوجھ ہیں توپھرمسنداقتدارپربیٹھنے والے یہ ستراوراسی سالہ بابے کیاہیں۔۔؟ سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمرپراگرغورکیاجاسکتاہے توپھربرسوں سے اس ملک کوہڑپ کرنے والے سیاستدانوں کی ریٹائرمنٹ کے لئے کوئی قاعدہ اورقانون کیوں نہیں بنایاجا سکتا۔۔؟ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر55نہیں اگر چالیس سال اورپنشن ہمیشہ کے لئے ختم بھی کی جائے پھربھی ملک وقوم کے یہ حالات کبھی نہیں بدلیں گے کیونکہ مسئلہ سرکاری ملازمین اورپنشن کانہیں بلکہ لوٹ مارکاہے اورلوٹ مارکاآغازہمارے ان سیاسی آشیانوں اورآستانوں سے ہوتاہے۔

سرکاری ملازمین اورپنشن کی بجائے اگران سیاسی لٹیروں کے لئے کوئی قانون بنایاجائے۔ان کیلئے ریٹائرمنٹ کی ایک عمراورحدمقررکی جائے ۔جس خاندان سے کوئی ایک فردبھی ایک بارایم این اے یاایم پی اے منتخب ہوں ۔اس خاندان پرپھرکم ازکم20سال تک الیکشن میں حصہ لینے پرپابندی لگائی جائے توپھردیکھنااس ملک اورقوم کے یہ حالات بدلتے ہیں کہ نہیں۔جوپیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن پرخرچ ہوتے ہیں ان کاپھربھی حساب توہے لیکن یہ سیاسی لوٹے اورلٹیرے ہردورمیں جوہاتھ مارکرکروڑوں اوراربوں مفت میں ادھرادھرکرتے ہیں ان کاتوکوئی حساب بھی نہیں۔اس لئے سرکاری ملازمین اوربوڑھے پنشنرزکاکام بڑے شوق سے ضرورتمام کریں لیکن ان سے پہلے ان مگرمچھوں کی پیٹ پربھی کوئی مضبوط لات ضرورماریں تاکہ ملک وقوم کے یہ بھاری کندھے حقیقی معنوں میں ہلکے ہوسکیں ۔کیونکہ اس ملک وقوم پراصل بوجھ کوئی اورنہیں بلکہ یہی چور،کرپٹ اورلٹیرے سیاستدان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں