340

کوئٹہ میں ہزارہ آبادی کی ٹارگٹ کلنگ میں کون ملوث ہے، تصویر کا ایک رخ۔ عاصم چوہدری

بلوچستان میں رہنے والی موجودہ ہزارہ پہلے افغانستان میں رہتی تھی وہاں انہوں نے 1888 میں افغانستان میں مظالم کے خلاف بغاوت کی اور 1891 میں افغانستان نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا جس کے بعد یہ لوگ اپنے مسلک کی وجہ سے ایران میں چلے گئے اور بعد میں یہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں آکر آباد ہوگئے ان کی ٹوٹل تعداد 9 لاکھ ہے۔ ان کے خلاف ٹارگٹ کلنگ ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوئی- اس وقت جو بھی وجوہات تھی میں ان وجوہات میں فی الحال نہیں جانا چاہتا، کیونکہ اس پر بہت دفعہ پہلے آوازیں اٹھا چکا ہوں کہ اس کے پیچھے سعودی عرب ہوا کرتا تھا۔ ان کے خلاف دوبارہ ٹارگٹ کلنگ عراق اور شام کی جنگ کے بعد شروع ہوئی اور اس کی بنیادی وجہ آپ کسی سے بھی پوچھیں تو آپ کو یہی بتایا جائے گا کہ ان کو مسلک کی بنا پر مارا جارہا ہے- لیکن کیا آپکو پتہ انکو مارنے والا کون ہے اور انکو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔

جیسے پاکستان میں سعودی عرب کی ایک جماعت کے پیچھے فنڈنگ ہوا کرتی تھی ویسے ہی پاکستان میں ایک جماعت کے پیچھے ایران کی فنڈنگ ہوا کرتی تھی اور اب بھی ہے اور ایران اس جماعت کے تحت پاکستان سے افراد کو بھرتی کرتا ہے اور بھرتی کرکے ان کی ایران میں ایرانی پاسدارن انقلاب کے انڈر ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر ان کو شام اور عراق میں بھیجا جاتا ہے اور وہاں یہ لوگ “داع ش” کے خلاف لڑتے ہیں، اور پھر یہ “داع ش” والے اپنا بدلہ ان ہزارہ کے لوگوں سے لیتے ہیں، کیونکہ ان کی 2 طرف سے دشمنی نکلتی ہے ایک افغانستان سے اور دوسری وہ شام میں اس تنظیم کا “داع ش” سے لڑنے کا بدلہ ان نہتے لوگوں سے لیتے ہیں۔ یہ دو ملکوں کی پراکسی لڑائی ہے جس کو بعد میں پھر مسلکی انداز میں بھڑکایا جاتا ہے، اور ہزارہ کے لوگوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ انکو کیوں مارا جارہا ہے، اور ان بیچاروں کو استعمال کرنے والے جماعتوں والے بیٹھ کر احتجاج کررہے ہیں۔

میں کسی کے  قتل کی حمایت نہیں کرتا اور اس کی بغیر اگر مگر کے مذمت کرتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ دو ملک اپنی پراکسی وارز کے لیئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کررہے ہیں جس سے پاکستان بدنام ہورہا ہے اور ہندوستان اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتا ہے، جبکہ مقامی بلوچ علیحدگی پسند لوگ انکو غیر ملکی سمجھتے ہیں وہ اس لیئے ان کے دشمن ہیں۔ یہ ویسا ہی ہے جیسا بلوچستان میں ہم پنجابیوں کے ساتھ ہوتا ہے- 

دانشور اس طرح کے کسی واقعہ کو ریاست پر بھونکنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں – جو لوگ جو کراچی میں احتجاج کررہے ہیں یہ لوگ آج اس تنظیم سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کریں اور اپنے لوگوں کو اس تنظیم میں بھرتی کرنے سے منع کریں۔  جن مطالبات میں یہ کہا گیا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے میں اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں کہ لاپتہ افراد کو سامنے لا کر ان پر کیس چلایا جائے لیکن کیا آپ کو پتہ یہ کن افراد کی بات کرتے ہیں- ان میں سے آپکو کوئی اس کے بارے میں نہیں بتائے گا۔

یہ ان افراد کی بات کرتے ہیں جن کو اوپر بیان کی گئی ایران کی پراکسی میں بھرتی کیا جاتا ہے ٹریننگ دی جاتی ہے اور وہ شام اور عراق میں جاتے ہیں ان میں سے کچھ واپس آجاتے ہیں اور کچھ کی لاش واپس آتی ہے- اور بہت سے ایسے بھی لاپتہ ہیں جو کہ شام سے ہی واپس نہیں آسکے- لیکن اگر ریاست کے پاس کوئی ہیں تو ان کو سامنے لا کر ان پر کیس چلانا چاہیئے- رات یہ بات دھرنے میں علی زیدی بھی کرچکا ہے کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو بازیاب کرایا اور سامنے آنے پر پتہ چلا کہ ان کے واقعی ہی سنگین نوعیت کے جرم ہیں۔ 

اس ملک میں دانشور بننا بہت آسان ہے اور دانشور بننے کی شرط ہے کہ فورا ہی کچھ بھی ہو ریاست کے خلاف محاذ کھول لو آپ دانشور ہیں۔ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں دوسرے ملکوں کے ہمدرد بہت ہیں لیکن پاکستان کا کوئی نہیں۔  میں پھر کہتا ہوں ہزارہ کے افراد کو تحفظ فراہم کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو ان کو تحفظ فراہم کرنا چاہیئے۔