ہم بھی ویسے ہربات کودل پرلے لیتے ہیں.بے چارے پرویزخٹک نے ایک چھوٹی سی بات کیاکہہ دی کہ ہرکوئی اب اس کے پیچھے پڑگیاہے۔۔اوظالمو۔۔عمراورعہدے کی اگرتمہیں پاس نہیں توکم ازکم غربت کے مارے اس بے چارے کے نحیف وکمزورجسم پرتوتھوڑارحم کھالو۔۔وزیراعظم عمران خان کسی دور یا زمانے میں فرمایا کرتے تھے کہ تھرپارکرمیں عذائی قلت یا کمی کی وجہ سے اکثربچوں کی نشوونماٹھیک نہیں ہوتی۔ طبی ماہرین کی بھی یہ رائے ہے کہ غربت اورعذائی قلت کی وجہ سے اکثربچوں کی صحت کافی متاثرہوتی ہے۔ عذائی قلت کادکھ،درداورعذاب سہنے والے اکثربچے پھرجوانی کیا۔۔؟مسٹر پرویزخٹک کی طرح عمرکے آخری حصے میں بھی دماغی توازن میں فرق وبگاڑکے ساتھ نحیف،کمزوراورلاغرجسم جیسے دیگر کئی طرح کے مسائل وعوارض کابھی شکارہوتے ہیں۔ پرویزخٹک صاحب کے نحیف وکمزورجسم کودیکھ کرماناکہ عذائی قلت اورکمی کاعذاب سہنے کی وجہ سے پرویزخٹک کوغربت اورغریب کاہم سب سے زیادہ احساس اورفکرہے لیکن ملک میں،، کوئی غریب نہیں والا،، جوارشاد پرویزخٹک صاحب نے فرمایاہے یہ اسی دماغی توازن میں بگاڑکاکرشمہ یاشاخسانہ دکھائی دے رہاہے۔خٹک صاحب کادماغی توازن اگرٹھیک اورہوش وحواس بحال ہوتے تووہ اسمبلی فلورپرپوری دنیاکواس طرح کابے ہودہ چیلنج کبھی نہ دیتے۔اول تومسٹرخٹک نے ملک میں کسی ایک غریب کی موجودگی کوبھی ناممکن اورمشکل قراردیتے ہوئے خود اپنی حکومت اوراپنے ایک صادق وایماندارکپتان کوبھی جھوٹاثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔جس طرح پرویزخٹک صاحب فرمارہے ہیں کہ ملک میں کوئی غریب نہیں اگرواقعی یہ سچ ہے توپھرخٹک صاحب کی حکومت اورکپتان کراچی سے ہزارہ اورچترال سے لاہورتک یہ لنگرخانے اورپناہ گاہیں کس کے لئے کھول یابنارہے ہیں۔۔؟
ملک میں واقعی اگرکوئی غریب نہیں توپھرحکومت نے احساس پروگرام کے نام پربارہ بارہ ہزاراقساط پرمشتمل کروڑوں اوراربوں روپے کن میں تقسیم کئے۔۔؟ بقول پرویزخٹک کے یہ ملک اگرغربت کی لعنت سے حقیقت میں پاک ہوگیاہے توپھرصحت سہولت کارڈکے نام پر پروگرام کادائرہ ملک میں کیوں وسیع کیاجارہاہے۔۔؟ملک میں اگرغریب نہیں توپھریوٹیلٹی سٹورپرآٹا،چینی،دال اورگھی پرپانچ پانچ روپے سبسڈی کے نام پریہ ڈرامے کیوں کئے جارہے ہیں۔۔؟ ایک پھونک سے ہوامیں اڑنے والے خٹک کی چف سے اگرغربت ختم ہوگئی ہے توپھرپچاس ہزارسے پانچ لاکھ روپے تک حکومتی قرضوں اورپانچ مرلہ کاعذی پلاٹوں کے لئے شب وروزچیخنے وچلانے کی تکلیف ومشقت کیوں اٹھائی جارہی ہے۔۔؟ ملک میں اگرکوئی غریب نہیں رہاہے توپھرغریبوں کے نام پرآئی ایم ایف،ورلڈبنک،سعودی عرب،چین اور دیگر ممالک کے سامنے کشکول اٹھاکرگھومنے اوربھیک مانگنے کے لئے جھولیاں پھیلانے کی کیاضرورت ہے۔۔؟ ملک میں ہرشخص اگرپرویزخٹک کی طرح امیراورملک امریکہ،برطانیہ،سعودیہ اورچین کی طرح مالی لحاظ سے خوشحال ہوگیاہے توپھرچندٹکوں کے لئے ایئرپورٹس اورموٹرویزسمیت دیگرقومی اثاثوں اور اداروں کوگروی رکھنے کاکیامطلب ہے۔۔؟ زمینی حقائق اورحالات کے مطابق تواس بدقسمت ملک میں آج بھی محنت کشوں،ریڑھی بانوں،چھابڑی فروشوں اوردیہاڑی دارمزدوروں سمیت نہ صرف کم ازکم 90فیصدلوگ خط غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزاررہے ہیں بلکہ ڈھائی تین سال سے چندٹکوں کے لئے قومی اداروں واملاک کودھڑادھڑاونے پونے داموں بیچنے اورگروی رکھنے پریہ حکومت بھی غربت کی عملی تصویربنی ہوئی ہے لیکن افسوس پرویزخٹک جیسے بے سینگ بادشاہوں کوخیبرسے بالاکوٹ اورسوات سے کراچی تک جھونپڑیوں میں ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے رلنے،تڑپنے،چیخنے اورچلانے والے غریب کیا۔۔؟
اپنی ہی حکومت کے گلے میں تین سالوں سے لٹکتے ہوئے کشکول بھی نظرنہیں آرہے۔جس گھرمیں ایم این ایز،ایم پی ایزاورممبروں کی بہتات اورہرقسم سہولیات کی ہمہ وقت فروانی ہو۔اس گھرکابڈھامکین کیاجانیں کہ غربت کیابلاہے۔۔؟اورغریب کیاشئے ہیں۔۔غربت اورغریب کاکوئی اس شخص سے پوچھیں جوآج بھی ایک وقت کی روٹی کی تلاش میں 50ڈگری کی گرمی میں پشاورکی چوکوں،چوراہوں اورگلی محلوں میں پاگلوں کی طرح دردرکی ٹھوکریں کھاتاپھررہاہے۔کسی نے غریب دیکھنے ہوں تووہ کہیں دورجانے کی بجائے صرف ایک بار پرویزخٹک کے حلقے میں ایک چکرلگاکرآئیں۔ وہاں ہرگھراوردرپرانہیں ہزاروں نہیں بھوک سے بلکنے اورروٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے ایڑھیاں رگڑنے والے لاکھوںغریب مل جائیں گے۔پورے ملک یاصوبے کوچھوڑکرصرف پرویزخٹک کے حلقے میں اگرغریبوں کی گنتی کی جائے توآپ یقین کریںوہاں بھی اتنے غریب نکل آئیں گے جتنے پرویزخٹک کے سرکے بال بھی نہیں ہوں گے۔بندہ خودامیرہوتوپھراسے گلی میں پھرنے والافقیربھی امیردکھائی دیتاہے۔شائدنہیں یقیننایہی وہ وجہ ہے جس نے پرویزخٹک کی معصوم آنکھوں پرپٹی باندھ رکھی ہے۔جس کوسگریٹ کی ڈبی تک سب کچھ بنابنایا پلیٹ میں ملتاہواس کوآٹے کے بھائواورغربت کے تائوکاکیاپتہ۔۔؟پرویزخٹک ٹھیک کہتے ہیں ان کے گھرمیں کوئی غریب نہیں کیونکہ بھائیوں اوربیٹوں سمیت قریبی رشتہ داروں اورخاندان میں جوغریب تھے ان سب کوایم این اے،ایم پی اے ،سینیٹراورناظم بناکرخٹک صاحب نے ان کی غربت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی ہے۔ہم مانتے ہیں کہ پرویزخٹک کے گھراورخاندان میں کوئی غریب نہیں لیکن یہ صوبہ اور ملک صرف پرویزخٹک کے گھراورخاندان کانام نہیں اس ملک میں پرویزخٹک کے گھراورخاندان کے علاوہ اوربھی ہزاروں نہیں لاکھوں گھراورخاندان ہیں۔پ
رویزخٹک بھی شائد بادشاہ کی اس بیٹی کی طرح کہیں ہوش میں نہیں۔جنہوں نے قحط سالی کے زمانے میں چہل قدمی کے دوران لوگوں کودرختوں کے پتے اورپتھرکھاتے ہوئے جب دیکھاتوارشادفرمایاکہ یہ لوگ پتے اورپتھرکیوں کھارہے ہیں دہی اورچاول کیوں نہیں کھاتے۔پرویزخٹک بھی غالباًیہ کہناچاہتے ہیں کہ لوگ غریب کیوں بنتے ہیں امیری کی زندگی کیوں نہیں گزارتے۔۔؟اس صاحب کی خدمت میں بس اتنی گزارش ہے کہ غریب ہونانہ کسی کی خواہش ہے اورنہ ہی کوئی شخص غریب ہوناپسندکرتاہے۔پرویزخٹک نے غربت دیکھی نہیں اس وجہ سے وہ سینہ چوڑاکرکے اسمبلی فلورپراس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ہم توکہتے ہیںاللہ کسی کافراوردشمن کوبھی غربت کی شکل نہ دکھائے۔ پرویزخٹک اس ملک کے ہرشخص کواپنے اوپرقیاس کرنے کی بجائے ذرہ چندلمحوں کیلئے سنگ مرمرکے بنے محلات سے باہرنکل کرچوکوں،چوراہوں اورگلی محلوں میں کدال،پیلچے اورگینتریاں اٹھانے والے دیہاڑی کی تلاش میں دربدرمزدوروں اورمحنت کشوں سے ایک بار ان کاحال پوچھیں۔پھربھی دل کواگرتسلی نہ ہوتواپنے حلقے کی ہی کسی جھونپڑی میں سرجھانک کرروٹی کے ایک ایک نوالے کیلئے تڑپنے،رلنے،ترسنے اوربلکنے والے غریب بچوں کی آہیں اورسسکیاں سنیں۔میں یقین سے کہتاہوں کہ جس دن پرویزخٹک ایئرکنڈیشنز کمرے، مرسڈیزکاراورپجاروسے نکل کر50 ڈگری کی گرمی میں صرف پانچ منٹ کے لئے کسی چوک اورچوراہے میں آئے اس دن نہ صرف اس کی یہ بندآنکھیں کھل جائیں گی بلکہ اس کویہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ اس ملک میں غریب ہیں کہ نہیں۔