Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
231

گھبرانے کا وقت شروع

مہنگائی بم کے دھماکے کے ساتھ ہی حکومت نے پٹرول بم بھی چلا دیا عوام کو اس صورتحال میں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں کیونکہ ہاتھوں میں پکڑے کرنسی نوٹ کاغذ کے ٹکڑے لگنے لگے ہیں لوگوں کے آمدن کے ذرائع محدود ہوتے جا رہے ہیں ان میں اب ضروریات کی اشیاء خریدنے کی بھی قوت نہیں رہی جبکہ مقابلے میں ہر گزرتے لمحات کے ساتھ مہنگائی ہرن کی طرح کلانچیں بھرتی دوڑ رہی ہے پاکستانیوں پر پچھلے چالیس برسوں میں ایسا وقت کھبی نہیں آیا ہر دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن جس تناسب کے ساتھ پچھلے چند ماہ میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اس منہ زور مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ایک طرف بےقابو مہنگائی ہے اور دوسری جانب حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی صنعتکار اپنی مصنوعات میں جو دل چاہے میٹیریل استعمال کرے وہ بے شک انسانی صحت کے لیے کتنا ہی مضر کیوں نہ ہو اسے کوئی پوچھنے والا نہیں وہ اپنی پراڈکٹ کی از خود قیمت مقرر کرتا ہے وہ جو دل چاہے قیمت مقرر کر لے اس پر کوئی چیک نہیں اسی طرح ذخیرہ اندوز جس چیز کو چاہے سٹاک کر کے مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگائی کر دے اس کو کھلی چھٹی ہے انتظامیہ قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ایک المیہ اور بھی ہے جتنی چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں اتنی ہی ملاوٹ زیادہ ہو رہی ہے اس ملک میں ہر مافیا کا کوئی نہ کوئی پشت پناہ اور والی وارث ہے لیکن عوام کا کوئی والی وارث نہیں ابھی وزیر خزانہ نے فنانس بل ایوان میں پیش کیا ہے ابھی اس کی منظوری نہیں ہوئی ابھی یہ صدرمملکت کے پاس نہیں گیا انھوں نے اس پر دستخط نہیں کیے قانونی طور پر یہ ابھی نافذ العمل نہیں لیکن پورے ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ کر دیا گیا ہے۔ 

میں نے اس منفرد قسم کی مہنگائی پر عوام کا فوری ردعمل چیک کرنے کے لیے محلے کی ایک دوکان پر جانے کا فیصلہ کیا میں دوکان کی ایک سائیڈ پر کھڑا ہو کر مناظر دیکھنے لگا ہر آنے والا گاہک دوکاندار سے لڑ رہا تھا کہ یہ چیز ہم کل اس ریٹ پر خرید کر لے گئے تھے آج آپ نے قیمتیں بڑھا دی ہیں دوکاندار ہر گاہک کے ساتھ بحث کر رہا تھا قیمتیں بڑھنے کی توجیہ پیش کرنے کے ساتھ ہی حکومت کو دوچار تبرے بھیجتا اور جواب میں گاہک بھی حکومت کو کلام بھیجتے ہوئے کلاسیکل تبصرے کرتے جاتے کچھ گاہکوں کی باقاعدہ گرمی سردی ہو گئی اور لڑائی ہوتے ہوتے بچی دوکاندار کا ایک ہی جواب تھا جاو جہاں سے سستی ملتی ہے لے لو بعد ازاں میں نے آفس جانے کے لیے لوکل وین میں سفر کرنے کا فیصلہ کیا سارے راستے میں مسافر کنڈیکٹر سے لڑتے نظر آئے ہر مسافر یہ کہتے سنا گیا کہ ہم کل تو اتنے پیسے دے کر گئے تھے یہ راتوں رات کونسا جن پھر گیا ہے کنڈیکٹر بھی حکومت کے پٹرول بم گرانے کی کہانی سنا کر حکومت کو برا بھلا کہتا اور جواب میں بھی ایسے ہی الفاظ سننے کو ملتے کنڈیکٹر  نے مہنگے پٹرول کا رونا رو کر کرائے بڑھانے کو اپنی مجبوری قرار دیا لوگ ابھی اس مہنگائی میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے اور نہ ہی انھیں کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ وہ اپنے ردعمل کا اظہار کیسے کریں ابھی چند دنوں تک جب اس مہنگائی بم کے اثرات مکمل طور پر واضح ہوں گے پھر پتہ چلے گا کیا ہوتا ہے ابھی تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان مہنگائی کے ایشو پر سیاست نہیں کر رہا ورنہ جس قسم کی مہنگائی کا عوام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ پٹرول کو ماجس دیکھانے والی بات ہے ابھی تو حکمرانوں کے گھر والوں نے بھی انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حکومت ان کی حکومت نہیں مسلم لیگ ن کے اندر شدید اضطراب پایا جا رہا ہے اور اس وقت چونکہ مریم نواز کو عوام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو انھوں نے حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے فی الحال عوامی سیاست کی بجائے انتظامی سیاست کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ایک اور بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت ان حالات میں کسی طور پر الیکشن میں جانے کا رسک نہیں لے سکتی اگر اس وقت الیکشن ہوتے ہیں تو سیدھا سیدھا اقتدار عمران خان کو پلیٹ میں رکھ کر دینے والی بات ہو گی آنے والے چند دن عوامی ردعمل اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے بڑے اہم ہوں گے بس دیکھیں اور انتظار کریں۔