لندن کے کئی علاقوں ویمبلے، ساوتھ آل، گرین سٹریٹ، الفورڈلین اور ٹوٹنگ وغیرہ میں کئی بار ویک اینڈ پر نارنجی رنگ کے کھلے کپڑے پہنے نوجوان گورے اور گوریاں ڈھولک اور گھنٹیوں کی تال پر ہرے کرشنا ہرے راما گاتے ہوئے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عام طور پر ایک گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ راہ گیر اس گروپ کو ایک نظر دیکھتے بلکہ خوشگوار حیرانی سے دیکھ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ برطانیہ میں سماجی زندگی کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا او رنہ ہی کوئی کسی کے ذاتی معاملات کی کرید میں رہتا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی اور دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہیں، انگریزوں میں یہ تجسس نہ ہونے کے برابر ہے کہ اُن کے ہمسائے یا رشتے دار کیاکھاتے پیتے ہیں؟ اُن کا عقیدہ یا مذہب کیا ہے؟ اُن کی آمدنی کتنی ہے؟ یا اُن کا ملنا جلنا کن لوگوں سے ہے۔ برطانوی لوگوں کی اکثریت وہاں کھجلی نہیں کرتی جہاں خارش نہ ہو رہی ہو۔ انگریز یا عیسائی اس بات پر بھی تشویش یا فکر میں مبتلا نہیں ہوتے کہ اُن کے گھر کے کسی فرد نے عیسائیت ترک کر کے اسلام یا کوئی مذہب اختیار کر لیا ہے اسی وجہ سے ہر سال برطانیہ اور یورپ میں ہزاروں لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور انہیں گھر والوں یا دوست احباب کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت یا تنقید کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا تا وقتیکہ نو مسلم شخص دوسروں کی زندگی میں مداخلت نہ کرے۔ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کسی غیرمسلم کی مذہبی تبدیلی کو ایک روحانی ضرورت یا طمانیت کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہے۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرے کے لوگ واقعی روحانی طور پر بے چین یا کسی قسم کے اضطراب کا شکار ہیں؟ اور کیا اسلام قبول کرنے یا کسی اور مذہب کو اختیار کر لینے سے اُن کے روحانی اضطراب کو سکون میسر آ جاتا ہے؟
برطانیہ میں بالغ لوگوں کی اکثریت اپنی مرضی اور آزادی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے اور یہاں کے بچوں کو ابتدا سے ہی اس شخصی آزادی کی ترغیب اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔ برطانوی عورتیں اور مرد اپنی ازدواجی زندگی میں بھی کسی قسم کے سمجھوتے یا کمپرومائیز کے عادی نہیں ہوتے، انگریزوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتی۔ یہ لوگ شادی کے بغیر پارٹنر کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے میں آسانی رہے اور جو انگریز شادی کر کے میاں بیوی کے طور پر اکٹھے زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں اُن میں بھی طلاق کا تناسب 42 فیصد ہے۔ جس معاشرے میں گھر ٹوٹنے کا تناسب اتنا زیادہ ہو وہاں شخصیات کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے طرح طرح کے نفسیاتی مسائل اور روحانی اضطراب جنم لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسی بے سکونی سے نجات کے لئے شراب نوشی یا کسی نشے کا سہارا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مسائل کم ہونے کی بجائے مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں مبتلا ہونے والے والدین کے بچوں کو سوشل سروسز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ سوشل سروسز ایسے بچوں کو فوسٹر پیرنٹس یعنی پرورش کرنے والے والدین کے سپرد کر دیتی ہے ایسے بچوں کی کسی قسم کی مذہبی رہنمائی نہیں کی جاتی۔
اس وقت برطانیہ میں تقریباً ایک لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی دیکھ بھال اور نگہداشت سوشل سروسز اور فوسٹر پیرنٹس کر رہے ہیں ان میں سے بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جن کو اپنے حقیقی والد یا والدین کا پتہ نہیں ہے جب یہ بچے بالغ ہوتے ہیں تو اِن کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اور یہ لوگ زندگی بھر روشنی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ برطانیہ کی ساڑھے چھ کروڑ آبادی میں تقریباً 37 فیصد یعنی سوا دو کروڑ سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو کسی بھی مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں۔ انسان ازل سے سکون کا متلاشی ہے، اس کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی جستجو میں ہے، روشنی کے حصول کے لئے محو سفر ہے، اپنے خدا کی تلاش میں سرگرداں ہے، اپنی روح کی بے قراری اور بے چینی کے بھید جاننے کے لئے بھٹک رہا ہے، سنبھل رہا ہے یعنی
؎اس اعتبار سے بے انتہا ضروری ہے
پکارنے کے لئے اک خدا ضروری ہے
شجاع خاور
مذہب اور روحانیت کیا دو الگ الگ معاملات ہیں؟ تصوف کیا ہے؟ صوفی ازم کسے کہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ اور مغرب میں روحانیت اور صوفی ازم کا چورن بہت بک رہا ہے اور دن بہ دن اس کی فروخت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، منزل کی تلاش میں بھٹکنے والے مسافروں کو کبھی کوئی کسی آشرم یا مندر کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے
سب اپنی اپنی طرف کھینچنے میں تھے مصروف
مجھے کوئی بھی خدا کی طرف نہیں لایا
قمررضاشہزاد
روحانیت اور تصو ف کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر بہت سے عیار لوگ ایسے بھٹکے ہوئے مسافروں کو مزید بھٹکا دیتے ہیں جو کسی روحانی یا نفسیاتی بے چینی کے سبب حقیقی رہنمائی اور منزل کے متلاشی ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے میں ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے جرمنی گیا وہاں ایک قوال سبز چوغہ پہنے اور گلے میں موٹے موٹے موتیوں والی بھاری مالائیں لٹکائے اس محفل میں شریک تھے۔ اُن کے دائیں بائیں دو سفید فام جرمن خواتین (لڑکیاں) مودب ہو کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔ انہوں نے بھی کھلے لباس پہن رکھے تھے اور گلے میں لمبا سبز دوپٹہ (چادر) لے رکھا تھا جو اُن کے گھٹنوں کو چھو رہا تھا۔ میرے استفسار پر ایک دوست نے بتایا کہ یہ دونوں جرمن عورتیں اس قوال کی مریدنیاں ہیں۔ قوال صاحب خود کو صوفی قرار دیتے اور غیر مسلموں کو تصوف کے رمز اور کیفیتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ موصوف خو د کو نمازروزے کی پابندی سے ماورا سمجھتے اور ہر وقت ایک وجدانی کیفیت میں رہنے کا ڈھونگ رچائے رکھتے ہیں۔ روح اور روحانیت ایک ایسی گتھی ہے جسے آج تک کوئی نہیں سلجھا سکا۔ روح صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے اور واپس اُسی کی طرف چلی جاتی ہے کوئی انسان اگر اپنی زندگی میں کسی روحانی کیفیت سے گزرتا ہے تو اس کا بھید صرف اس روح کے خالق کے علم میں ہوتا ہے۔ مجھے لندن میں چند ایسے نو مسلموں سے ملنے اور اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاموقع ملا ہے جو لادین یا کسی اور مذہب کے پیروکار تھے۔ اُن میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو روحانی اور نفسیاتی طور پر بہت مضطرب، بے چین اور مضمحل تھے۔ انہوں نے کسی کے کہنے یا اپنے طور پر قرآن پاک کو ایک کتاب کے طور پر پڑھنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ اُن کی بے چینی اور اضطراب میں کمی آنے لگی۔ قرآن پاک کو اپنی زبان میں مکمل طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد انہیں یوں لگا کہ اللہ کی یہ کتاب واقعی راہِ ہدایت ہے، یہ روشنی ہے جس کی تلاش میں وہ مارے مارے پھر رہے تھے، اس کتابِ حکمت کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد نہ تو انہیں کسی خانقاہ یا درگاہ سے منسلک ہونے یا اپنی حاجات کے لئے کسی پیر فقیر سے رابطے کی ضرورت محسوس ہوئی اوہ نہ ہی کسی عالم فاضل یا کسی خاص مسلک اور عقیدے کے مولانا یا علامہ سے کوئی سرٹیفکیٹ یا سند لینے کی حاجت رہی۔ قرآن پاک کی تفہیم نے اُن کی زندگی کو آسان کر کے روحانی اور نفسیاتی بے چینیوں کا مداوا کر دیا۔ اگر ہم پیدائشی مسلمانوں کا اُن نو مسلموں سے موازنہ کریں جنہوں نے قرآن پاک کو پڑھ اور سمجھ کر بقائمی ہو ش و حواس اسلام قبول کیا ہے تو ہمیں دونوں طرح کے مسلمانوں کے رویوں، طرزِ فکر، طرز ِ زندگی اور ترجیحات میں واضح فرق نظر آئے گا۔ پیدائشی مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن حکیم کو صرف عربی میں پڑھنے کے لئے برکت اور ثواب کی کتاب سمجھ رکھا ہے جبکہ نو مسلم اسے کتابِ ہدایت سمجھ کر اسے اپنی زبان میں پڑھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج غیرمسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں اور خاص طور پر پیدائشی مسلمانوں کی زندگیاں، روحانی اور نفسیاتی طور پر زیادہ بے چین، بے سکون اور مضطرب ہیں۔ اللہ ہم پیدائشی مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم قرآن حکیم کو کتاب ہدایت سمجھ کر اپنی زبان میں پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔
٭٭٭