300

مسلمانوں کے مقابلے میں مغرب کی ترقی کا راز

سنٹرل لندن سے سڑک کے ذریعے ہیتھرو ایئر پورٹ کی طرف جائیں تو ہائیڈ پارک کے دوسری طرف نائٹس برج میں دنیا کے مہنگے ترین سٹور ہیرڈز کی بلند و بالا اور جاذب نظر عمارت نظر آتی ہے جس سے آگے کنزنگٹن کے علاقے میں ایک بہت ہی شاندار اور منفرد عمارت ایستادہ ہے جو کہ دراصل نیچرل ہسٹری میوزیم ہے۔ ویسے تو لندن اپنی آرٹ گیلریز، پارکوں، تھیٹرز، تاریخی عمارات، کیسینوز اور شاپنگ سنٹرز وغیرہ کے باعث دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لئے ایک خاص کشش رکھتا ہے لیکن اس شہر کے تقریباً 170میوزیمز یعنی عجائب گھر بھی لندن کی انفرادیت کا ایک بڑا سبب ہیں۔ گریٹر لندن کے 10بہترین عجائب گھروں میں پہلے نمبر پر وی اینڈ اے میوزیم ساؤتھ کنزنگٹن میں موجود ہے۔ اس عجائب گھر میں آرٹ، ڈیزائن، فیشن اور ٹیکسٹائل سے متعلق تقریباً 2.3(دو اعشاریہ تین) ملین اشیاء نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں۔د وسرے نمبر پر برٹش میوزیم ہے جو 1759ء میں قائم ہوا تھا۔ مقبولیت کے اعتبار سے نیچرل ہسٹری میوزیم تیسرے نمبر پر آتا ہے(جس کے لئے یہ کالم قلمبند کیا جا رہا ہے)۔ امپیریل وار میوزیم، نیشنل میری ٹائم میوزیم، لندن کینال میوزیم، سائنس میوزیم، ڈیزائن میوزیم، لندن ٹرانسپورٹ میوزیم، سرجان سوانز میوزیم اور میوزیم آف لندن برطانوی دارلحکومت کے 10بہترین عجائب گھروں میں شمار ہوتے ہیں۔ عجائب گھر اس لئے بھی پرکشش اور دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان میں ایسی منفرد اشیاء اور نوادرات موجود ہوتے ہیں جو ہمیں روزمرہ کی زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ لندن کے بیشتر میوزیمز ایسے ہیں جہاں داخلے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں رکھی گئی۔ کئی برس پہلے جب میں پہلی بار کسی کام کے سلسلے میں کرامویل روڈ پر واقع فرانس کے سفارت خانے گیا تو اس کے بالمقابل نیچرل ہسٹری میوزیم کی پُرشکوہ اور ہر ایک کو متوجہ کرنے والی عمارت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ چند ہفتوں کے بعد میں اس میوزیم کو دیکھنے کے لئے گیا تو پورا دن یہاں گزارنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی یہ عجائب گھر برطانیہ کا ایک اہم اثاثہ ہے جسے 141برس پہلے قائم کیا گیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اسے خوب سے خوب تر بنایا گیا۔یہ عجائب گھر درحقیقت اس کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ خاص طور پر انگریز سائنس دان چارلس ڈارون (12فروری1809ء -19اپریل 1882ء) کی تحقیق اور حیاتیاتی ارتقاء کے بارے وہ سب کچھ یہاں محفوظ ہے جس کے بارے میں لوگ اب تک صرف کتابوں میں ہی پڑھتے چلے آئے ہیں۔اس عجائب گھر میں کچھ عرصہ قبل ایک ملٹی میڈیا سٹوڈیو بنایا گیا جسے ایٹنبرا سٹوڈیو کا نام دیا گیا۔ یہ سٹوڈیو درحقیقت مقبول براڈ کاسٹر، بائیولوجسٹ اور محقق سرڈیوڈ ایٹنبرا (SIR DAVID ATTENBOROU)کو خراج تحسین اور ان کے تحقیقی کام اور نیچرل ہسٹری کے دستاویزی پروگرامز کو محفوظ کرنے کے لئے قائم کیا گیا۔ میں سر ڈیوڈ ایٹنبرا کا بہت بڑا مداح ہوں۔انہوں نے دنیا کے ہر براعظم کے سمندروں، صحراؤں، جنگلوں، پہاڑوں، میدانوں، دریاؤں اور مستقل منجمد رہنے والے علاقوں کے جانوروں اور پودوں کے بارے میں ایسی ایسی معلوماتی فلمیں اور پروگرام بنائے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برطانیہ میں اس وقت سمارٹ موبائل فون متعارف نہیں ہوا تھا اور لوگ شام کے وقت ٹی وی ضرور دیکھا کرتے تھے۔ اُن دنوں بی بی سی کے ایک ٹی وی چینل پر ڈیوڈ ایٹنبرا کا وائلڈ لائف کے بارے میں سلسلہ وار پروگرام ”برڈز آف پیراڈائز“ یعنی جنت کے پرندے نشر ہوتا تھا۔ یہ پروگرام دنیا بھر میں موجود خوبصورت ترین پرندوں کے بارے میں تھا۔ اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں کئی برس لگے جس کے بعد ”جنت کے پرندوں“ کا یہ شاندار پروگرام تیار کیا گیا جس میں ان پرندوں کے بسیروں، گھونسلوں، عادات، خوراک اور نفسیات کے بارے میں ایسی معلومات کو یکجا کیا گیا جو اس سے پہلے کبھی عام لوگوں تک نہیں پہنچیں تھیں۔میں نے ان تمام پروگرامز کی ویڈیو کیسٹس خریدیں جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ اگر آپ بھی اپنی اس سرزمین یا کرۂ ارض جسے سائنسدان پلینٹ ارتھ PLANET EARTHکہتے ہیں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انسانوں کے علاوہ اس روئے زمین پر جانور، پودے اور حشرات الارض کس طرح زندگی گزارتے ہیں اور اس کائنات کی بے جان چیزوں سے ان کا کیا تعلق ہے تو ڈیوڈ ایٹنبرا کے دستاویزی پروگرامز ضروردیکھیں۔ ایک جہان حیرت کے در آپ پر کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ 95سالہ سر ڈیوڈ ایٹنبرا نے اپنی پوری زندگی پلینٹ ارتھ کی کھوج لگانے میں گزاری ہے۔ اسی لئے نیچرل ہسٹری میوزیم میں ان کے نام پر ایک شاندار اور پروقار ملٹی میڈیا سٹوڈیو بنایا گیا ہے۔ سمجھدار اور دوراندیش قومیں اپنے بہترین لوگوں کی خدمات کا اسی طرح اعتراف کرتی ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم کو دنیا بھر کے 5ملین سے زیادہ لوگ ہر سال دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس عجائب گھر کی دیکھ بھال کے لئے تقریباً ساڑھے آٹھ سو لوگ کل وقتی ملازم ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے سائنس کے طالبعلموں کی اس عجائب گھر میں دلچسپی کی وجہ سے یہاں کوئی نہ کوئی لائیو شو اور لیکچر آئے روز منعقد ہوتا رہتا ہے۔ اس میوزیم کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی جب 32میٹر لمبے ڈائنو سار کے ڈھانچے پر نظر پڑتی ہے تو لگتا ہے کہ آپ کسی ماورائی دنیا کا حصہ بن گئے ہیں۔ ذرا آگے چل کر دوسرے بڑے ہال کے اندر جائیں 25میٹر لمبی بلیو ویل کا ڈھانچہ آپ کو مزید حیران کر دے گا۔ اس عجائب گھر کے ہر حصے میں ایسے ایسے عجائبات موجود ہیں جو بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو دلچسپ حیرانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم کے ہر حصے کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری یہ کائنات کیسے کیسے عجائبات سے بھری پڑی ہے۔ ہم نے کبھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ ویسے بھی اس کائنات کے بھید جاننے کی جستجو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کے سربستہ رازوں کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب میں کئی بار اس اٹل حقیقت کی تنبیہ کی ہے کہ اس کی ہر تخلیق سے وابستہ رازوں میں عقل والوں اور غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ موجودہ زمانے میں غور کرنے اور کائنات کے رازوں کو جاننے کے لئے کون سی اقوام سب سے آگے ہیں تو اس فہرست میں مسلمانوں کا نمبر سب سے آخر میں ہو گا۔ اسی لئے ہماری آج کی دنیا میں ایجادات اور تحقیق کے معاملے میں غیر مسلم اقوام سب سے آگے ہیں۔ جب تک مسلمان علم، تحقیق، جستجو اور غور کرنے کے معاملے میں پیش پیش تھے اس وقت تک وہ کامیاب اور کامران تھے۔ آج کی مسلمان اقوام اور ممالک جو ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہیں لیکن علم اور تحقیق کی دولت سے محروم ہیں۔ اسی لئے بدحالی، بدامنی، افراتفری، انتہاپسندی اور ذلت نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم تو اب اس حقیقت پر غور کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے کہ اہل مغرب نے کن سنہرے اصولوں کو اپنا کر اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنایا ہے اور کن ضابطوں کی پیروی کر کے اپنے معاشروں میں امن و امان کو فروغ دیا ہے۔ کہنے کو تو ہمارے دانشور یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ غیر مسلموں نے اسلام کے نظام مساوات، نظام انصاف، نظام زکوٰۃ، دیانتداری اور صفائی پسندی کے اصولوں کو اپنا کر ترقی کی ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو مسلمان ملکوں کو کس نے ان اصولوں اور انصاف ومساوات کے نظام کو اپنانے سے روک رکھا ہے؟

٭٭٭٭٭٭