283

انگریزوں کی کامیابی کا راز

ہم تینوں دوست ہیتھرو ایئرپورٹ کے ٹرمینل تھری پر کھڑے اپنے چوتھے دوست کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے سامان کے انتظار میں ٹرالی لئے کھڑا تھا جہاز کو ہوائی اڈے پر اترے تقریباً ایک گھنٹہ گزر چکا تھا ہمارا یہ چوتھا دوست ہمیشہ سفر پر جاتے اور آتے وقت اپنے ساتھ فالتو سامان لاد لیتا ہے جس کا خمیازہ ہم تینوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ جس سفر میں یہ دوست ہمارے ساتھ نہ ہو تو ہماری وہ مسافت بہت آسان ہو جاتی ہے کیوں کہ جب ہم تینوں دوست سفر پر کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ہینڈ لگیج(Hand Luggage) ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو ہمیں بُک کئے ہوئے سامان کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی امیگریشن کے لئے قطار میں زیادہ دیر کھڑے ہونے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ 26ملکوں کے سفر بلکہ بار بار سفر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس مسافر کے پاس سب سے کم یا صرف ضرورت کا سامان ہو اس کا سفر سب سے آسان رہتا ہے۔ صرف دنیا کا سفر ہی نہیں بلکہ آخرت کے سفر میں بھی انہی مسافروں کو آسانی اور سہولت ہو گی جن کے پاس حساب دینے کے لئے دنیا کا سامان کم سے کم ہو گا۔

اللہ رب العالمین کے آخری نبی کریمؐ نے مال و دولت کو اپنی امت کے لئے ایک کڑی آزمائش اور امتحان قرار دیا تھا لیکن اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک کے مسلمانوں کو دیکھیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول اور مال جمع کرنے کی خواہش دوسرے مذاہب کے لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ہر جائز و ناجائزحربہ آزمانے اور چکر چلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے اپنے آخری خطبے حجۃالوداع میں اپنی امت کوجن جن کاموں سے منع فرمایا اور جن چیزوں سے باز رہنے کی تلقین کی تھی عصر حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے عمل سے ان سنہری ہدایات کی نفی کر رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا تھا ”لوگو تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں جیسے کہ تم پر آج کے دن کی، اس شہر کی، اس مہینے کی حرمت کرتے ہو، لوگو! تمہیں عنقریب خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو“۔

اگر ہم 50سے زیادہ مسلمان ممالک اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بہت واضع ہے دولت کی غیر مساوی تقسیم کے باعث ہمارا معاشرہ طرح طرح کے مسائل میں مبتلا ہے۔پاکستان میں جو لوگ امیر ہیں ان کے پاس بے حساب دولت ہے اور وہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں بہت سے اوورسیز پاکستانی جب وطن واپس جاتے اور ریسٹورانٹس یا شاپنگ سنٹرز میں اپنے ہم وطنوں کو پیسہ خرچ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ حیران رہ جاتے ہیں کہ پاؤنڈز اور ڈالرز کمانے کے باوجود وہ ان ”شاہ خرچیوں“ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میرے ایک دوست پاکستان کے بڑے بڑے سرکاری افسران سے تعلقات بنانے کے بڑے شوقین ہیں وہ جب بھی پاکستان جاتے ہیں تو اپنے ان افسر دوستوں کے لئے تحائف کے سوٹ کیس بھر کر لے جاتے ہیں جو ان کے اعزاز میں پرائیویٹ پارٹیز کا اہتمام کرتے ہیں۔ کوئی بھی سرکاری افسر ایک پرائیویٹ پارٹی پر جتنی رقم خرچ کرتا ہے وہ اس کی ماہانہ تنخواہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی ہوس نے ہماری معاشرتی اخلاقیات کا ستیاناس کر کے ہر ایک کو کرپشن اور قانون شکنی کی طرف مائل کر دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ رشوت خور اور بدعنوان سرکاری افسروں سے پہلو بچاتے اور ان سے گھریلو میل جول سے گریز کرتے تھے لیکن اب ہزاروں میں ماہانہ تنخواہ لینے اور لاکھوں میں خرچ کرنے والے سرکاری ملازمین سے تعلق داری پر لوگ فخر کرتے اور کہتے ہیں کہ ہر سرکاری افسر بڑے کام کا آدمی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا یا پوچھتا کہ اس سرکاری ملازم کے پاس اس کی آمدنی سے زیادہ اثاثے کہاں سے آئے؟ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی ہوس انسان کو کبھی چین اور سکون سے جینے نہیں دیتی۔ جو فرد یا قوم جائز و ناجائز ذرائع سے صرف دولت کے حصول کو اپنانصب العین بنا لے وہاں کے معاشرے افراتفری، جرائم، بدامنی، منافقت، مفادپرستی اور بے حسی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ مال ودولت جمع کرنے کی تمنا اور جستجو انسان کو قبر تک لے جاتی ہے اور دولت کے پجاریوں کی اکثریت اپنا مال اور خزانے ان لوگوں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں جن کو وہ اپنی زندگی میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینا چاہتے۔ بہت سے لوگ جو صرف دولت جمع کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دیتے ہیں اسے خرچ کرنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ ان کی جمع کی ہوئی دولت کو ان کے بعد کوئی اور خرچ کرتا ہے لیکن روز آخرت اس کا حساب جمع کرنے والے کو دینا پڑے گا۔

انگریزوں میں دولت کے حصول اور اسے خرچ کرنے کا نقطہ نظر مسلمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گوروں کی اکثریت زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی ہوس میں مبتلا نہیں ہے۔ برطانیہ میں تین طرح کے لوگ ہیں تاجر، ملازمین (سرکاری اور پرائیویٹ) اور بے روزگار جنہیں حکومت روٹی کپڑا اور مکان کے وسائل فراہم کرتی ہے۔برطانوی تاجر دو نمبری، ملاوٹ اور جعل سازی کے بغیر اپنا کاروبار کرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، ملازمین کی ہیلتھ اینڈ سیفٹی اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے خبط اور دوسروں کا حق مارنے کے جنون میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس لئے پرآسائش اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔نہ ہی سیاست کی کھکھیڑ میں الجھتے ہیں بلکہ خیراتی اداروں کو اپنی زندگی میں بہت کچھ دیتے اور مرنے کے بعد بھی اپنی وصیت میں فلاحی کاموں کے لئے کچھ نہ کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کام کے اوقات کی ناصرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان اوقات کے دوران ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ ملازمین کی اکثریت ہڈ حرامی سے باز رہتی ہے۔ مراعات کے حصول کے لئے جتن کرنے سے زیادہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لئے برطانیہ میں بہت سے ادارے اور ٹریڈ یونینز موجود ہیں لیکن وہ بھی صرف ایسے ملازموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جو اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی نہ برتتے ہوں۔ جو لوگ بے روزگار ہوں حکومت ان کو ہفتہ وار مالی امداد دیتی ہے جس سے ان کا گزارہ ہوتارہتا ہے جیسے ہی ان لوگوں کوملازمت ملتی ہے تو ان کی سرکاری امداد بند کر دی جاتی ہے۔ برطانیہ میں جگہ جگہ سرکاری جاب سنٹرز موجود ہیں جو بے روزگار لوگوں کو ملازمت کے حصول کے لئے مشورے، رہنمائی اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو حکومت سے بے روزگاری الاؤنس بھی لیتی ہے اور چوری چھپے کوئی چھوٹا موٹا کام بھی کرتی رہتی ہے لیکن ایسے لوگوں کی کارستانیوں کا بھانڈا پھوٹنے پر انہیں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ معمولی معذوری کو بڑھا چڑھا کر مکمل معذوری کا کوئی سرٹیفکیٹ یا رپورٹ بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ یہ جعلی معذور ہے تو اسے بھاری جرمانے اور سرکاری انکوائری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن انگریزوں کو بے روزگاری اور معذوری الاؤنس ملتا ہے وہ اسے ہر ہفتے خرچ کر کے اپنی زندگی کے معمولات کو جاری رکھتے ہیں جبکہ برطانیہ میں آباد تارکین وطن اور خاص طور پر صومالیہ اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے چائلڈ بینیفٹ کی مد میں ایک بڑی رقم سرکاری خزانے سے وصول کرتی ہے۔ اس ملک میں اوورسیز مسلمان کمیونٹی میں یہ رجحان بھی عام ہے کہ ان کو بے روزگاری، معذوری یا چائلڈ بنیفٹ کے طور پر جو مالی امداد ملتی ہے وہ اسے خرچ کرنے کی بجائے جمع کرتے رہتے ہیں اور اپنے آبائی ملکوں میں اس رقم سے جائیدادیں خریدتے ہیں۔ سونے کے زیورات بنوا کر لاکرز میں محفوظ کر دیتے ہیں اور یہ بھید اس وقت کھلتا ہے جب ان جائیدادوں پر قبضے ہو جاتے ہیں یا ان قیمتی زیورات کو کوئی ہتھیا لیتا ہے۔ ہم مسلمان فقر و درویشی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی ساری زندگی صرف اور صرف دولت کے حصول بلکہ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے لئے تگ و دو میں صرف کر دیتے ہیں اور اگر خوش قسمتی یا کرپشن کے ذریعے مال و دولت حاصل کر بھی لیں تو اس کے خمار میں مبتلا ہو کر دوسروں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

گورے کبھی دولت کو ہاتھ کا میل قرار نہیں دیتے اور نہ ان کی کرنسی پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ ”رزق حلال عین عبادت ہے“ نہ ہی وہ فقر و درویشی کالبادہ اوڑھ کر دولت کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں نہ ہی دیانتداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔اپنی ذمہ داریوں کو ہر ممکن طریقے سے نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ بھاشن دینے یا اقوال زریں پر سر دھننے کی بجائے اپنے حصے کاسچ بولتے اور اپنے حصے کا چراغ جلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ قناعت جسے مسلمان اپنی میراث سمجھتے ہیں مغربی اقوام نے عملی طور پر اسے اپنا رکھا ہے۔ مرنے کے بعد آخرت میں جزا و سزاکا فیصلہ اٹل ہے لیکن خالق کائنات نے دنیا میں بھی افراد اور اقوام کے اعمال کی جزا و سزا کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے، ملکوں اور قوموں کی خوشحالی یا بدحالی انہی اعمال کا نتیجہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭