215

انگریز کسی کی بےجا تعریف کرنے میں بخیل ہیں

انگریزوں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کی تعریف کرنے کے معاملے میں بہت بخیل اور تنگ نظر ہیں اور خوشامد کے کرشمے سے بالکل ہی ناواقف ہیں۔ نہ تو وہ اپنے سیاستدانوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتے ہیں اور نہ ہی شخصیت پرستی کے جنوں میں مبتلا ہو کر اندھا دھند اُن کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ جو پارٹی لیڈر عوامی فلاح وبہبود کے لئے عملی اقدامات اٹھاتاہے، ڈلیور کرتا ہے برطانوی عوام اُسے ووٹ دیتے ہیں اور جو لیڈر اپنی ترجیحات کا غلط تعین کرتا اور عوامی اُمنگوں کے برعکس فیصلے کرتا ہے انگریز ووٹر اُسے اپنے ووٹ کے ذریعے انتقام کا نشانہ بناتے ہیں چاہے وہ ٹونی بلیئر ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ برطانیہ میں بھی بعض اوورسیز پاکستانی اپنے ایسے قائدین کی تصاویر اور جھنڈے اپنی گاڑیوں پر سجائے پھرتے ہیں جو پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں اور جھنڈوں والی ان گاڑیوں کو دیکھ کر دیگر اقلیتوں کے لوگ اور انگریز زیرِ لب مسکراتے اور ہماری سادگی کی ”داد“ دیتے ہیں۔دنیا کی دیگر اقوام کے بارے میں تو مجھے نہیں معلوم لیکن برصغیر اور خاص طور پر پاکستان کے لوگ بے جا تعریف اور خوشامد کے معاملے میں بہت فراخ دِل ہیں۔ برمنگھم میں مقیم ہمارے ایک دوست شاعر اقبال نوید کا ایک شعر ہے

؎ چھوٹے چھوٹے پیڑوں کو برگد کر دیتا ہوں

میں بھی جب تعریف کروں تو حد کر دیتا ہوں

بے جا تعریف اور خوشامد لوگوں کو خوش فہمی بلکہ غلط فہمی میں مبتلا کر کے پہاڑ پر چڑھا دیتی ہے جہاں سے اترنا اُن کے لئے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے اور پھر ایسے لوگ ذرا سی تنقید بھی برداشت نہیں کرتے اور جو لوگ اُن کی تعریف اور توصیف یا خوشامد نہ کریں تو وہ انہیں اپنا خیر خواہ نہیں سمجھتے۔ جو کان دِن بھر خوشامد سننے کے عادی ہو جائیں انہیں صرف اور صرف اپنی تعریف سننے کے علاؤہ کچھ اچھا نہیں لگتا۔ انگریزی زبان تعریفی الفاظ کے معاملے میں کنگال نہیں ہے۔ تعریف اور توصیف کے لئے انگریزی لغت میں درجنوں الفاظ موجود ہیں مگر انگریز لوگ بہت نپے تلے الفاظ میں کسی کی تعریف کرتے ہیں۔ جہاں ہم جیسے لوگ تعریف کرنے کے لئے الفاظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں وہاں گورے ایک یا دو لفظوں سے کام چلا لیتے ہیں۔ویسے بھی گوروں کو بے جا تعریف سننے کی عادت نہیں ہے۔ مبالغے اور تشبیہات سے کام لینا برصغیر کا کلچر ہے۔ بیوی، پارٹنر یا بچوں کی تعریف کے معاملے میں گورے ہم سے یکسر مختلف ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دِن بھر ڈارلنگ، سویٹ ہارٹ وغیرہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، گھر سے رخصت ہوتے اور گھر میں داخل ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو بوسہ دیتے ہیں، گھر کے معمولی کاموں پر ایک دوسرے کے لئے توصیفی کلمات استعمال کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُن کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کی کوئی بات پسند نہ آئے یا بچوں کا کوئی کام انہیں اچھا نہ لگے تو اس کا اظہار بھی وہ برملا کر دیتے ہیں۔ فیملی کے علاؤہ دوست احباب کی محفلوں میں بھی گورے منافقت سے کام نہیں لیتے۔ اچھی بات پر پسندیدگی اور بُری بات پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی منہ پر ہی کر دیتے ہیں جبکہ ہم دیسی لوگوں کی اکثریت اس معاملے میں بہت مصلحت آمیز ہے۔ منہ پر تعریف اور غیر موجودگی میں عیب گنوانا ہمارا وطیرہ ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ اچھے دوست کی پہچان اس وقت ہوتی ہے جب وہ آپ کا تذکرہ آپ کی غیر موجودگی میں کرتا ہے۔ جو شخص کسی محفل میں آپ کو موجود نہ پا کر آپ کی خوبیاں گنوانے کی بجائے آپ کی عیب جوئی کرے بلکہ آپ کے کردار کے بخیئے ادھیڑے وہ کبھی آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔ کسی کی تعریف یا مخالفت کرنا دونوں ہی مشکل کام ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف سے کسی کے لئے تعریف اور ستائش کا ایک لفظ بھی بہت ہوتا ہے اور بعض اوقات کچھ لوگوں کی جانب سے کہے گئے درجنوں تعریفی جملے ذرا بھی وقعت نہیں رکھتے، گنجائش سے زیادہ تعریف خوشامد کا روپ دھار لیتی ہے اور بے جا تنقید یا مخالفت اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ مؤثر تعریف اور مخالفت دونوں ہی ذہانت کی متقاضی ہوتی ہیں۔ کئی لوگ اپنے حریف کی مخالفت میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ مخالفت کرنے والے کا اپنا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔ تعریف یا مخالفت کی گرہیں اتنی مضبوطی سے نہیں لگانی چاہئیں کہ بعد میں ہاتھوں کی بجائے دانتوں سے کھولنی پڑیں۔ تعریف ہر نارمل انسان کو اچھی لگتی ہے اور انسانی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اچھے کاموں پر بچوں کی تعریف انہیں مزید اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کسی بالغ شخص کی خوبیوں کو سراہنے سے اُسے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ گھریلو کاموں پر بیوی کے لئے کہے گئے تعریفی جملوں سے گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے۔ تعریف کے لئے بھی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعریف ایسے نپے تلے اور گنے چنے الفاظ میں ہونی چاہئے کہ وہ خوشامد یا مُبالغہ نہ لگے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ مذہبی رہنماؤں، پیروں، پیشواؤں اور آئمہ کی تعریف کے معاملے میں لوگ مبالغے کی حدوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ایسی ایسی خوبیاں اور اوصاف اُن سے منسوب کر دیئے جاتے ہیں جو کبھی اُن شخصیات میں موجود نہیں رہے۔ تعریف کے سلسلے میں اور خاص طور پر محبوب کی تعریف کے لئے ہمارے اردو شاعروں کو کمال حاصل رہا ہے۔ محبوب کے لبوں کی تازگی کے بیان سے لے کر اس کے چہرے کو آفتاب و ماہتاب قرار دینے تک ہر تشبیہ اور استعارہ اردو شاعری کے تصرف میں رہا ہے۔ وہی محبوبہ جس کی تعریف میں ایک شاعر نئی سے نئی تشبیہ کا سہارا لیتا ہے جب وہ اس کی بیوی بن جاتی ہے تو وہی تشبیہات اور استعارے اُسے مبالغہ لگنے لگتے ہیں۔اس ضمن میں مرثیہ نگاروں کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو وہ تشبیہات، استعارے اور مبالغے کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ویسے تو سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہماری زمین سمیت اس ساری کائنات کو تخلیق کیا۔ ہم بچپن میں یہ نظم پڑھا کرتے تھے کہ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا، کیسی زمیں بنائی، کیا آسماں بنایا۔ اگر ہم غور کریں تو اس روئے زمین پر قدرت نے صحراؤں، میدانوں، جنگلوں، سمندروں اور پہاڑوں کو ایسی رعنائیاں اور انفرادیت بخشی ہے کہ انسان بے ساختہ اپنے رب کی تعریف کرنے لگتا ہے۔ اپنے خالق اور اس کائنات کے مالک کی تعریف کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو نعمتیں اس نے ہمیں عطا کی ہیں ہم اُن کی قدر کریں۔ صحت کسی بھی انسان کے لئے سب سے بڑی دولت ہے۔ اگر ہم اپنی صحت کی حفاظت کریں اور اس نعمت کے لئے اپنے رب کے شکرگزار ہیں تو یہ بھی ایک طرح سے اپنے خالق کی تعریف کے مترادف ہے۔ قدرت نے ہمیں جو خوبصورت سرزمین عطا کی ہے اس کے قدرتی مناظر کی ایسے حفاظت کرنا کہ دیکھنے والے بے ساختہ اس کی تعریف کریں تو یہ بھی اپنے اللہ کی تعریف کا ایک ذریعہ ہے۔ بعض اوقات کسی انسان کی ذرا سی تعریف اس کی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لے آتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی آپریشن یا بیماری کے بعد ہسپتال سے گھر آ گیا ہو اور اس کی تیمارداری کے لئے آنے والا ہر شخص اُسے یہ کہے کہ اب تو آپ بہت تندرست اور صحت مند لگ رہے ہیں آپ کے چہرے پر بھی تروتازگی نظر آ رہی ہے۔ اِن دو جملوں کی وجہ سے وہ مریض ایک مہینے کی بجائے ایک ہفتے میں مکمل صحت مند ہو جائے گا اور اگر اُسی مریض کو ہر تیماردار آ کر یہ کہے کہ آپ تو بہت نحیف اور کمزور ہو گئے ہیں لگتا ہے بیماری نے آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے تو وہ شخص صحت یاب ہونے کی بجائے مزید بیمار ہوجائے گا۔ اسی طرح کسی کی تعریف کرتے وقت ہمیں کچھ الفاظ بچا کر رکھ لینے چاہئیں کہ اگر اس سے بہتر شخص کی تعریف کرنی پڑے تو ہمارے پاس ذخیرہ الفاظ کی کمی نہ ہو۔ میں ایک بار اپنے کسی دوست کے گھر دعوت پر گیا وہاں اور لوگ بھی مدعو تھے۔ خاتونِ خانہ نے کئی طرح کے کھانے بنا رکھے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد سب لوگ کھانے کی تعریف کرنے لگے بلکہ بہت زیادہ تعریف کرنے لگے۔ خاتونِ خانہ نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو کھانا کیسا لگا میں نے استفسار کیا کہ اس کھانے کو آپ کے مہمانوں میں سب سے زیادہ رغبت سے کس نے کھایا؟ تو وہ کہنے لگیں کہ آپ نے بہت رغبت سے میرا بنایا ہوا کھانا کھایا تو میں نے جواب دیا کہ اچھے کھانے کی بہترین تعریف یہی ہوتی ہے کہ اس کے ذائقے سے لطف اندوز ہونے کے لئے اُسے رغبت کے ساتھ کھایا جائے۔ کھانے کو محض نگل کر اُس کی تعریف کرنے والے اس کی لذت اور ذائقے کو محسوس نہیں کر سکتے۔

٭٭٭