Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
235

چائے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کا قومی مشروب

برطانیہ کی کل آبادی تقریباً پونے سات کروڑ ہے اور اس ملک کے لوگ روزانہ چائے کے 10کروڑ کپ پیتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں کھلی چائے کی پتی نہیں ملتی صرف ٹی بیگ دستیاب ہوتے ہیں جنہیں کیتلی میں اُبالے ہوئے پانی کو کپ میں ڈال کر بڑی آسانی سے چائے بنائی جاتی ہے جسے لوگ انگلش ٹی کہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس چائے کو پسند نہیں کرتی۔انہیں اپنے طریقے سے دیسی چائے یا دودھ پتی بنا کر پینا ہی اچھا لگتا ہے اور اب تو لندن میں جگہ جگہ کڑک چائے اور مسالہ چائے کے سٹال اور ریستوران کھل گئے ہیں۔ برطانیہ میں سرد موسم کا دورانیہ چونکہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ناشتے کے علاؤہ بھی دن میں کئی بار چائے پینے کا رواج عام ہے۔ انگریزوں کی ایک بڑی تعداد دودھ کے بغیر چائے یعنی صرف قہوہ پینے کی عادی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں پہلی بار چائے اس وقت متعارف ہوئی جب 1657ء میں اسے چین سے برطانیہ لایا گیا۔ لندن میں پہلا کمرشل چائے خانہ 1706ء میں کھولا گیا۔ 1720ء تک اس چائے خانے میں صرف بلیک ٹی یعنی قہوے سے گاہکوں کی تواضع کی جاتی تھی لیکن پھر اس میں دودھ اور چینی (شوگر) کی آمیزش سے بادامی رنگت کی چائے متعارف کرائی گئی جس کے ذائقے کو رفتہ رفتہ پسند کیا جانے لگا۔ 1750ء تک چائے صرف امیر گوروں کا مشروب تھا لیکن پھر چائے کی پتیوں کو وافر مقدار میں برطانیہ امپورٹ کر کے اس کی قیمت میں کمی کی گئی اور یوں چائے آہستہ آہستہ ہر گھر کی ضرورت بن گئی اور اسے بعض بیماریوں کا علاج بھی سمجھا جانے لگا۔ خاص طور پر برطانیہ کی ورکنگ کلاس کے جن لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا وہ چائے میں استعمال ہونے والے ابلے ہوئے پانی کو بخار اور کئی موسمی بیماریوں کے لئے مفید تصور کرنے لگے۔ تاہم میڈیکل سائنس ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکی کہ چائے سے کسی بیماری کا علاج ممکن ہے۔ البتہ چائے میں موجود کیفین کی وجہ سے پینے والے کی طبیعت کی سستی ذرا سی کم ہو سکتی ہے یا وہ خود کو ذرا سا چست محسوس کر سکتا ہے۔ یورپ میں چائے کو پرتگیزی تاجروں اور عیسائی مبلغوں نے متعارف کرایا۔ تحقیق کے مطابق چائے تیسری عیسوی صدی میں چین میں دریافت ہوئی جہاں اس کی پتیوں کو ابلے ہوئے پانی میں ڈال کر مشروب کے طور پر استعمال کرنے کی ابتداء ہوئی۔ چین کے علاؤہ ہندوستان میں آسام کے علاقے میں بھی چائے کے پودوں کی موجودگی کے تاریخی شواہد ملتے ہیں۔ اس وقت چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے جو تقریباً 3ملین ٹن چائے ہر سال استعمال اور ایکسپورٹ کرتا ہے جس کے بعد انڈیا اور کینیا کا نمبر آتا ہے۔ سرکی لنکا، ویت نام، ترکی اور ایران چائے کی پیداوار کے معاملے میں بالترتیب چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔ 

لندن میں ایڈورڈ براماہ نامی ایک شخص نے 1992ء میں ایک ٹی اینڈ کافی میوزیم بنایا تھا جہاں دنیا بھر میں پیدا اور استعمال ہونے والی چائے کی مختلف اقسام اور اُن کی تاریخ کو یکجا کیا گیا تھا۔ لندن آنے والی سیاحوں اور چائے پینے کے شوقین لوگوں کی بڑی تعداد اس میوزیم کو دیکھنے کے لئے ساؤتھ ایسٹ لندن کی سدک سٹریٹ جاتی تھی لیکن یہ میوزیم 2008ء میں ایڈورڈ براماہ کے انتقال کے بعد بند ہو گیا۔ ایڈورڈ نے اپنی 76سالہ زندگی میں چائے کے بارے میں بڑی تحقیق کی اور ایک کتاب”BRITAIN’S TEA HERITAGE“  ترتیب دی جس کی اشاعت سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ برطانیہ کے علاقے کینٹ میں ٹی پاٹ آئی لینڈ کے نام سے ایک ایسا سٹور بھی موجود ہے جہاں چائے کے برتنوں کی 7600 اقسام موجود ہیں۔ اس سٹور میں نہ صرف مختلف طرح کی چائے سے گاہکوں کی تواضع کی جاتی ہے بلکہ وہ اپنی پسند اور ذوق کے مطابق منفرد طرز کے چائے کے برتن بھی خرید سکتے ہیں۔ اسی طرح کٹی سارک اور سنٹرل لندن میں بھی چائے کے ایسے بڑے سٹورز ہیں جہاں ہر طرح کی چائے اور ان کی تاریخی معلومات گاہکوں کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔ چائے اس وقت پوری دنیا میں سب سے مقبول اور پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ چین کے ٹینفوٹی میوزیم (TENFU TEA MUSEUM) اور ہانگزاؤ نیشنل ٹی میوزیم (HANGZHOU NATIONAL TEA MUSEUM) کا شمار دنیا کے منفرد اور شاندار عجائب گھروں میں ہوتا ہے جنہیں دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے چائے کے شوقین وہاں جاتے ہیں۔ اِن کے علاؤہ تائیوان میں پنگلن ٹی میوزیم، سری لنکا میں سیلون ٹی میوزیم، انڈیا (کیرالا) میں کانن دیون ہلز ٹی میوزیم، دارجلنگ(انڈیا) میں ہیپی ویلی ٹی ایسٹیسٹ بھی چائے کی اقسام اور تاریخ کے حوالے سے بہت معلوماتی مراکز ہیں۔ 

دنیا بھر میں ہر سال 7بلین میٹرک ٹن چائے استعمال ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ چائے ترکی کے لوگ پیتے ہیں جن کے بعد کینیا کے لوگوں میں چائے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔اس وقت چائے کی تجارت کا عالمی حجم ڈھائی سو بلین ڈالرز سالانہ ہے جو 2025ء تک 267بلین ڈالرز سالانہ تک پہنچ جائے گا۔ چائے کی دو ہزار نازک پتیوں کو خشک کرنے کے بعد اُن سے بمشکل آدھا کلو چائے تیار ہوتی ہے اور اب دنیا میں چائے کی ڈیڑھ ہزار سے زیادہ اقسام استعمال کی جاتی ہیں۔ چائے ہو یا کوئی اور مشروب جب انسان اسے پینا شروع کرتا ہے تو ابتداء میں وہ ایک شوق ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کا استعمال ایک عادت بن جاتی ہے۔ میں نے بہت سے ایسے دوست احباب بھی دیکھے ہیں جو اگر ایک دِن چائے نہ پئیں تو اُن کی طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ سردکھنے لگتا ہے مزاج میں بیزاری نمایاں ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ اگر صبح کے وقت یا ناشتے میں چائے نہ پئیں تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ اُن کے دِن کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ ایشیا اور خاص طور پر پاکستان میں چائے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہوتی ہے۔جب ایک خاندان کسی دوسرے خاندان میں رشتہ دیکھنے کے لئے جائے تو ابتدائی طور پر انہیں چائے پر ہی بلایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ہائی ٹی کا رواج عام ہو گیا ہے۔ متمول گھرانوں کی اس ہائی ٹی میں چائے تو صرف برائے نام اور دیگر لوازمات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ چائے پینے کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ چینک میں چائے کو دم لگا کر کپ کو پرچ میں رکھ کر بڑی نفاست سے اس مشروب کو اپنے ہونٹوں کے لمس کا اعزاز بخشتے ہیں۔ بہت سے لوگ اعلیٰ معیار کے ٹی سیٹ (چینک، کپ، پرچ، دودھ دانی، چائے دانی) کو اچھی چائے سے مشروط سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اعلیٰ معیار کی کراکری سے چائے پینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں چائے اور سگریٹ کو شاعروں اور ادیبوں کے لئے لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ صحافی بھی چائے پینے کے معاملے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اردو کے شاعروں نے چائے کی شان میں قصیدے لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چائے کی شان میں ایسی ہی ایک غزل معلوم نہیں کس شاعر نے کہی ہے:

لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے

عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے

کیتلی ہجر کی تھی غم کی بنالی چائے

وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے

ہم نے مشروب سبھی مضرِ صحت ترک کئے

ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی چائے

میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں

اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے

رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں

اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے

چائے کی ردیف کے ساتھ بے مثال شاعر ظفر اقبال نے ایک طویل غزل لکھی تھی جس کے بعد ساقی فاروقی نے 50سے زیادہ اشعار پر مبنی ایک غزل ”چائے“ کو ردیف بنا کر کہی تھی۔ کوشش کے باوجود مجھے ظفر اقبال اور ساقی فاروقی کی یہ غزلیں میسر نہیں آ سکیں وگرنہ اس کالم میں چائے کی مناسبت سے اُن دونوں سینئر شعراء کا کلام بھی قارئین تک پہنچ جاتا۔ بہرحال گرما گرم چائے تھکن سے نجات کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ اکیلے چائے پینے کا لطف اپنی جگہ لیکن کبھی کبھی دوست احباب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کا اپنا ہی سرور ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ:

ہم اتنی گرم جوشی سے ملے تھے

ہماری چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی

٭٭٭