192

تشویش

سیاستدانوں نے پاکستان کو شطرنج کا پھٹہ بنا دیا ہے کوئی ایک چال چلتا ہے تو دوسرا اسے مات دینے کے لیے کوئی اور مختلف چال چل کر کہتا ہے اب بتا بچو مزہ آیا اور اس مزے مزے میں ریاست اور عوام کا کچومر نکال دیا ہے لیکن نہ ان کا کھیل ختم ہونے کو آرہا ہے نہ انھیں عقل آرہی ہے نہ انھیں احساس ہے دوسری جانب ملک کے معاشی حالات کچھ ایسے ہیں کہ کارخانہ داروں نے خام مآل نہ ملنے کے باعث بینکوں کی جانب سے امیورٹ کے لیے ایل سیز نہ کھولے جانے پر چابیاں گورنر سٹیٹ بینک کے حوالے کر دی ہیں کہ ہم سے سے کارخانے نہیں چل رہے آپ سنبھال لیں کئی تاجر موجودہ صورتحال سے اسقدر پریشان ہیں کہ زرا سی بات پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے حکومت نے ایک قسم کی غیر اعلانیہ مالیاتی ایمرجنسی لگا رکھی ہے بینکوں میں جن کے فارن کرنسی اکاوئنٹ ہیں ان کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں ہر قسم کی امپورٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے بینک ڈالر نہیں دے رہے جو مال پاکستان کی بندرگاہ پر موجود ہے اس کی بھی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ریلیز نہیں کیا جا رہا ایک خبر یہ بھی ہے کہ بینک فیول درآمد کرنے والی کمپنیوں کی ایل سیز بھی نہیں کھول رہے پاکستان کے پاس صرف فیول کے دو بحری جہاز ہیں ایک پاکستان پہنچ چکا ہے اور دوسرا پہنچنے والا ہے اگر فیول منگوانے والی کمپنیوں کی ایل سیز نہ کھولیں تو فروری کے مہینے میں پاکستان میں فیول نایاب ہو جائے گا آپ کو یاد ہوگا کہ سری لنکا میں بھی فیول نہ ملنے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی ہو گئیں تھیں اور جو حشر ہوا تھا وہ سب آپ کے سامنے ہے آئی ایم ایف ہمیں تاحال گھاس نہیں ڈال رہا سعودی عرب اور ورلڈ بینک سے جو فوری رقوم ملنے کی توقع تھی انھوں نے بھی اسے معاشی اصلاحات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اب اگر آئی ایم ایف ہم پر مہربانی کربھی دے تو مہنگائی کا اتنا خوفناک طوفان آئے گا کہ رہ رب دا ناں حکومت نے نئے ٹیکس لگانے کے لیے آرڈیننس تیار کر لیا ہے بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ بھی ہو چکا بس کسی بھی مہنگائی بم کا اعلان کر دیا جائے گا ان تمام تر حالات سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا حکومت صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کچھ نہیں ہو گا ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن قوم کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے کہ ہمیں بتائیں آپ کے پاس وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے آپ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیں گے ہم پہلے ہی تشویش میں مبتلا قوم کو مزید ڈرانا نہیں چاہتے لیکن اتنا ضرور بتا دیں کہ حالات درست نہیں پتہ نہیں کسی بھی وقت ہمارے ساتھ کیا ہو جائے مجھے متعدد قارئین کے فون آ رہے ہیں جو اپنی تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کس چیز کا انتظار کیا جا رہا ہے ادارے کیوں خاموش ہیں قوم کو حقیقت سے کیوں آگاہ نہیں کیا جا رہا قوم سے کیوں چیزیں چھپائی جا رہی ہیں عدالت کیوں سوموٹو لے کر حقیقت قوم کے سامنے نہیں رکھتی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے کیوں نہیں پوچھا جارہا کہ ہماری اقتصادی صورتحال کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں لوگوں میں خوف پایا جا رہا ہے کہ وہ نہ ہو معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جائیں کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قوم کو اعتماد میں لیں حقیقت قوم کے سامنے رکھی جائے اور وہ اقدامات بھی قوم کے سامنے رکھے جائیں جن کی بنیاد پر قوم کو کہا جا رہا ہے کچھ نہیں ہو گا مجھے ایک قاری ادریس خان کا فون آیا انھوں نے ایک بہت اچھی تجویز دی بہت ساری باتیں انھوں نے بھی دوسروں کی طرح اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن ان کی تجویز قابل عمل اور بڑی کارگر ثابت ہو سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چونکہ توانائی کے بحران کا سامنا ہے ہم مہنگے فرنس آئل سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اگر کسی غیرملکی کمپنی سے بات کی جائے یا کسی پاکستانی سرمایہ کار کو دعوت دی جائے اس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے کہ پاکستان میں 3اور5 مرلہ کے تمام گھروں کو سولر پینل لگا کر انھیں سولر انرجی پر منتقل کر دیا جائے اور جتنا وہ ماہانہ بجلی کا بل دیتے ہیں اس کے برابر ان سے ماہانہ اقساط میں اس سولر پینل کی لاگت وصول کر لی جائے تو اربوں روپے کی بجلی کی بچت ہو سکتی ہے مہنگے تیل کی امپورٹ سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں اور سال ڈیڑھ سال کی قسطوں کے بعد غریبوں کو مفت بجلی مہیا ہو گی اسی طرح کے دیگر پراجیکٹ بنائے جا سکتے ہیں پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو چھوٹے چھوٹے پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی جا سکتی ہے خاص کر بجلی پیدا کرنے کی قدرتی سائٹس پر سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر بجلی کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کی جا سکتی ہے ہمارا زرعی ملک ہے خبر تھی کہ ہم نے پچھلے 6 ماہ میں چار ارب ڈالر سے زائد مالیت کی غذائی اشیاء امپورٹ کی ہیں اس چار ارب ڈالر میں سے ہم نے 50 کروڑ ڈالر ہی اپنے کسانوں پر لگایا ہوتا انھیں سبسڈی دے کر ان اجناس کی پیداوار کی طرف راغب کیا ہوتا تو ہم غذائی اشیاء میں خود کفیل ہوتے اب بھی وقت ہے ہمیں اپنی زراعت پر توجہ دینی چاہیے ہم زراعت پر توجہ دے کر 6ماہ میں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں اور دوچار سال میں کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ سے اپنی جان چھڑوا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرے گا کون جہاں فیصلہ کرنے والی قوتوں کا ہر معاملہ میں مالی مفاد ہو گا ان کے کمشن ہوں گے وہاں ملک وقوم کا مفاد پس پشت ڈال دیا جائے گا جہاں سیاستدان اپنی لڑائیوں میں مصروف ہوں گے وہاں پالیسیاں نہیں بنیں گئیں وہاں سیاسی چالیں ہی چلی جائیں گی خدارا قوم کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ایک دوسرے کو چکمے دینے پر لگے ہوئے ہیں خدارا کچھ تو سوچ لیں