120

تحبیب فیسٹیول لندن

لندن، تقریبات کا شہر ہے، یہاں نامور شخصیات کی آمدورفت، فیسٹیولز، کانفرنسز اور سیمینارز کے انعقاد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ ہر ویک اینڈ پر کسی نہ کسی سماجی، سیاسی یا ادبی تقریب کا ہونا معمول کی ایک بات ہے۔ مشاعرے اور ادبی نشستیں اس شہر میں پاکستانی اور انڈین کمیونٹی کے مل بیٹھنے اور تبادلہ خیال کا خوشگوار ذریعہ ہیں۔ اردو کا کوئی بھی نامور شاعر اور ادیب جب لندن آتا ہے مختلف تنظیمیں اپنے اِن اہل قلم کے لئے استقبالیے اور پذیرائی کا اہتمام ضرور کرتی ہیں۔ برطانوی دارالحکومت کی ادبی رونقوں کو مہمیز کرنے کے لئے گذشتہ برس یہاں سنجیو صراف نے جشنِ ریختہ کی طرح ڈالی۔ سالِ رواں میں بھی بہت سی اہم ادبی تقریبات اور شاندار مشاعرے منعقد ہوئے۔ اس سال کا سب سے اہم ادبی پروگرام تحبیب (TAHBIB)کا ادبی و ثقافتی فیسٹیول تھا۔ تحبیب معیاری ادبی اور ثقافتی فیسٹیولز کے انعقاد کے سلسلے میں ایک معتبر ادارہ ہے جس کے بانی اور سربراہ طارق فیضی ہیں جو طویل عرصے سے دبئی میں مقیم ہیں۔ اردو کی ادبی دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ذاتی نمودونمائش کی خواہش کو بالائے طاق رکھ کر زبان و ادب کے فروغ کے لئے سرگرمِ عمل ہیں اور اس کام کو مشن سمجھ کر کئے جا رہے ہیں۔ طارق فیضی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں جو خود بلا کے سخن شناس اور اردو زبان سے محبت کے علمبردار ہیں۔ وہ انڈیا اور پاکستان کے علاؤہ بیرونی دنیا میں آباد اردو کے جینوئن شاعروں اور ادیبوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔ وہ کوئلے کی کان سے ہیرے اور چٹانوں کی کوکھ سے سونے کی دریافت جیسا دشوار کام کر رہے ہیں۔ اُن کو عصر حاضر کے درجنوں گمنام اور نامور شعرا کے عمدہ اشعار ازبر ہیں۔ اچھی اور معیاری ادبی تقریبات کے انعقاد اور اردو سمیت دیگر زبانوں کی شاعری اور ادب کے فروغ کے سلسلے میں وہ بے مثال منتظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تحبیب فیسٹیولز کے ذریعے وہ ایسے عمدہ اور شاندار شاعروں اور اہل قلم کو سخن شناس حلقوں میں متعارف کراتے ہیں جنہیں عام طور پر ادبی گروہ بندیوں کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے یا جو سخنور بڑی بڑی تقریبات میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں۔طارق فیضی کا کمال یہ ہے کہ وہ اِن اہل سخن کو ڈھونڈ نکالتے اور اپنی تقریبات کی زینت بناتے ہیں۔ دبئی، آزربائیجان، بحرین، انڈیا اور جاپان کے بعد طارق فیضی نے 22ستمبر کو وسطی لندن میں ایک شاندار تحبیب فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ وائی ایم سی میں ہونے والے اس ادبی میلے کا آغاز معروف ادیب، شاعر اور کالم نویس فہیم اختر کے استقبالیہ خطاب سے ہوا۔انہوں نے بہت عمدگی سے لندن کے ادبی ماحول اور اردو شعروادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اہل قلم کی خدمات کا احاطہ کیا۔فہیم اختر کے خیر مقدمی خطاب کے بعد تحبیب کے روحِ رواں طارق فیضی نے اپنے ادارے کے اغراض ومقاصد اور لٹریری فیسٹیولز کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے لندن میں ادبی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے اُن شاعروں اور ادیبوں کے تخلیقی کارناموں کا اعتراف کیا جن کی وجہ سے دیار غیر میں اردو زبان و ادب کا چراغ روشن ہے۔ طارق فیضی کے خطاب کو بہت توجہ سے سنا اور سراہا گیا۔ اس فیسٹیول کی نظامت سمعیہ علی نے کی۔ فیسٹیول کے دوسرے حصے میں ممتاز دانشور اور قانون دان سیف محمود نے اردو کی کلاسیکی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی شعراء کے کلام کا حوالہ دے کر ان کے تخلیقی کارناموں کو اجاگر کیا۔ بعد ازاں لندن اردو وائس کے بانی اور براڈ کاسٹر یوسف ابراہم نے ایک طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سنا کر حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ فیسٹیول کا ایک سیشن مشاعرے اور شاعروں سے مکالمے کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مشاعرے میں صرف 5شاعروں کو دعوتِ کلام دی گئی جن میں شہرام رضا، گلناز کوثر، شہباز خواجہ، سلیم فگار اور مجھ (فیضان عارف) سمیت عاطف توقیر کے نام شامل ہیں۔ تمام شعراء کو میلے میں شریک اہل ذوق نے دِل کھول کر داد دی۔ بعد ازاں تمام شاعروں سے اُن کی شاعری اور لندن میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے سوالات کئے گئے، شاعری کا معاشرے اور انسانی فکر پر اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔ گلناز کوثر نے بہت عمدہ نظمیں سنائیں۔ اُن کی شاعری اور اس کے اچھوتے موضوعات کو بہت سراہا گیا۔ دیگر شعراء کے کلام کا انتخاب بھی بہت شاندار تھا۔ چند منتخب اشعار قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں۔

٭ شہرام رضا (برمنگھم)

چاند پر پہلا قدم رکھ کے زمیں دیکھتا ہوں

میں زمیں پر کہیں ہوں بھی کہ نہیں دیکھتا ہوں

میں نے دو راستے دیکھے ہیں جدا ہوتے ہوئے

اپنا انجام بھی ایسا ہی کہیں دیکھتا ہوں

……..

٭ شہباز خواجہ (لندن)

سبز ہوتے ہوئے پیڑوں پہ بڑی حیرت ہے

کس طرح خاک سے یہ برگ و ثمر کھینچتے ہیں

وہ چلا جائے جسے شوقِ پذیرائی ہے

ہم نہیں جاتے ہمیں لوگ جدھر کھینچتے ہیں

……..

٭ فیضان عارف (لندن)

جہاں پہ لوگ ہی ظلمت پرست ہو جائیں

وہاں پہ پھر کوئی سورج نکلنے والا نہیں

 یہ آگ چاروں طرف پھیلنے لگی فیضان

فقط دعاؤں سے خطرہ یہ ٹلنے والا نہیں

……..

٭ سلیم فگار(لندن)

اب آسمان سارا مری دسترس میں ہے

 انگلی اُٹھا کسی بھی ستارے کی بات کر

معیار کے نہ مجھ کو کم و بیش میں پرکھ

تجھ کو اگر قبول ہوں سارے کی بات کر

……..

٭ عاطف توقیر(جرمنی)

وجودِ عشق کا کوئی سرا مِلا نہیں مِلا

خودی ملی؟ نہیں مِلی، خدا ملا؟ نہیں ملا

یہ عہد ردّ کا عہد ہے سو رسم مسترد ہوئی

مسیحِ وقت دار پر کھڑا ملا؟ نہیں ملا

……..

فیسٹیول کا ایک سیشن پنجابی شاعری کے لئے مختص تھا جس کی ماڈریٹر نتاشا تھیں۔ ممتاز پنجابی شاعر مظہر ترمذی نے اس موقع پر اپنی شاعری سنائی اور اپنے مشہور گیت ”عمراں لنگھیاں پبھاں پھار“ کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس موقع پر اُن سے ان کی پنجابی شاعری کے بارے میں سوالات بھی کئے گئے۔ اس سیشن میں الوینا شاہ نے امرتا پریتم کی نظم پڑھ کر سنائی۔ اس ادبی و ثقافتی میلے کا ایک سیشن فلم سکریننگ کا تھا جس میں مہمانِ خصوصی جمیل دہلوی تھے۔ تقریب کے اس حصے میں ممتاز حسین کی ایک فیچر فلم حاضرین کو دکھائی گئی۔ فیسٹیول کے آخری سیشن میں محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا جس میں گلوکار بشارت بیگ اور امتیاز مرزا نے غزلیں اور گیت سنا کر اس ادبی میلے کی رونق کو دوبالا کر دیا۔ الوینا شاہ نے اختتامی اعلان میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس فیسٹیول میں انورسن رائے، مصطفی شہاب، اکرم قائم خانی، جاوید سومرو، ثقلین امام، سید زاہد اقبال، ہما پرائس، مختار میر، طلعت گل، تنویر زمان خان اور شاہد علی سید سمیت لندن کی اہم اور ادب دوست شخصیات نے شرکت کی۔ لندن میں تحبیب فیسٹیول کا انعقاد ایک خوش آئند تجربہ تھا۔ امید ہے کہ طارق فیضی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اگلے برس زیادہ وسائل اور تیاری کے ساتھ اس فیسٹیول کا اہتمام کریں گے۔ طارق فیضی اس بات کے لئے ستائش اور شاباش کے حق دار ہیں کہ انہوں نے دوبئی سے لندن آ کر یہاں ایک اور ادبی و ثقافتی میلے کی بنیاد رکھ دی۔ لندن میں کامیاب تحبیب فیسٹیول کے لئے طارق فیضی کے ساتھ اُن کے رفیق اور ہم قدم سیدعباس علی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔جو لوگ بھی بیرونی دنیا میں اردو زبان و ادب کے نئے چراغ روشن کر رہے ہیں، تارکین وطن کو اُن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہئے کیونکہ اردو صرف زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس سے ہماری تہذیب اور ثقافت بھی وابستہ ہے۔

٭٭٭