سانتا کلاز ویلج کی رات بہت ٹھنڈی تھی‘ ہم یہ رات اوگلو میں گزارنا چاہتے تھے‘ اوگلو برف کے درمیان شیشے کے نیم دائرے کی شکل کے کمرے ہوتے ہیں‘ پیندا زمین کے ساتھ جب کہ دیواریں آدھے دائرے میں دائیں سے اوپر اور اوپر سے بائیں آتی ہیں‘یہ دور سے بلبلہ دکھائی دیتا ہے‘ آپ جب اس کے اندر لیٹتے ہیں تو پورا آسمان دکھائی دیتا ہے‘ اوگلو ناردرن لائیٹس دیکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ اندر سے گرم ہوتے ہیں اور مہنگے ہوتے ہیں‘ ایک رات کا کرایہ 17 سو ڈالر تھا۔
ہم یہ ظلم برداشت کرنے کے لیے تیار تھے لیکن اوگلو ایک تھا اور ہم تین چناں چہ یہ آئیڈیا ڈراپ کر دیا گیااور رات گزارنے کے لیے دو کمروں کا ہٹ لے لیا‘ یہ لکڑی کا ہٹ تھا‘ مجھے مری میں اپنا ہٹ یاد آ گیا اور میں نے مری کو یاد کر کے رات گزار دی‘ ساری رات برف باری ہوتی رہی‘ صبح تک ہماری گاڑی برف میں دفن ہو چکی تھی‘ہم صبح کامی روانہ ہو گئے‘ مخدوم عباس بہت شان دار ڈرائیور ہے‘ یہ برف میں گاڑی چلاتے چلاتے ایس ایم ایس بھی کر سکتا ہے اور میلز کا جواب بھی دے سکتا ہے‘ میں سفر کے دوران یاد کراتا رہتا ہوں ”جناب یہ گاڑی ہے جہاز نہیں‘ اسے چلاتے ہوئے ہاتھوں اور آنکھوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے“ لیکن یہ قہقہہ لگا کر میری بات ہوا میں اڑا دیتا ہے‘ ڈرائیونگ کے بعد اس کا دوسرا شوق یورپ میں فیکٹریاں لگانا اور یہ فیکٹریاں بعدازاں کسی نہ کسی نئے پاکستانی کو بیچنا ہے‘ یہ دو تین سال ریسرچ کر کے یورپ کے کسی ملک میں منافع بخش جگہ پر فیکٹری لگاتا ہے‘ یہ جب مکمل ہو جاتی ہے اور چلنے لگتی ہے تو یہ کوئی نیا پاکستانی بزنس مین تلاش کرتا ہے اور اسے وہ فیکٹری بیچ دیتا ہے‘ فیکٹریاں لگانا اور بیچنا کوئی نیا کام نہیں‘ دنیا میں بے شمار لوگ یہ کام کرتے ہیں لیکن مخدوم ان لوگوں سے بالکل مختلف انسان ہے‘ یہ خریدار کا باقاعدہ انٹرویو لیتا ہے‘ یہ دیکھتا ہے کیا خریدار کے بچے ہیں اور کیا یہ سکول جاتے ہیں اور کیا یہ واقعی فیکٹری چلانا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
وہ یہ کیوں دیکھتا ہے؟ اس کی وجہ بھی دل چسپ ہے‘ یہ سمجھتا ہے پاکستانی یورپ میں غریبانہ کام کرتے ہیں جس سے گوروں میں پاکستان کا امیج خراب ہے‘ یہ پاکستانیوں کو پڑھا لکھا اور بزنس مین نہیں سمجھتے چناں چہ یہ چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ پاکستانی بزنس میں آئیں تاکہ یورپ میں پاکستان کا امیج ٹھیک ہو‘ دوسرا کیوں کہ فیکٹری خریدنے کے بعد خریدار کو خاندان سمیت امیگریشن مل جاتی ہے لہٰذا اگر اس کے بچے ہوں گے تو وہ یورپ میں مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے یوں جنریشنز بدل جائیں گی۔
تیسرا وہ چاہتا ہے فیکٹری کا نیا مالک بزنس چلائے‘ وہ امیگریشن لے کر فیکٹری فروخت نہ کر دے‘ اس نے پچھلے سال پرتگال میں دو فیکٹریاں لگائیں‘ یہ آج کل ان کے خریداروں کے ”انٹرویوز“ کر رہا ہے چناں چہ سارا دن اس کا فون بجتا رہتا تھا اور یہ برف میں گاڑی چلاتے چلاتے خریداروں کے انٹرویوز کرتا رہتا تھا اور میں یااللہ خیر کے نعرے لگاتا رہتا تھا۔ہم سانتا ویلج سے صبح نکلے اور بارہ بجے کامی آ گئے‘ ہم نے وہاں سنو بائیکس اور آئس بریکر شپ بک کرا رکھا تھا۔
ہم سنو بائیکس کے آفس پہنچ گئے‘ ہمیں سب سے پہلے سنوبائیک کا سرخ لباس پہنایا گیا‘ یہ خلا نوردوں جیسا انتہائی گرم اور ائیرٹائیٹ لباس ہوتا ہے‘ پاﺅں پر ڈبل اونی جرابیں اور برف میں چلنے والے گرم جوتے پہنائے جاتے ہیں‘ سر پر ٹوپی اور گردن پر گرم مفلر لپیٹا جاتا ہے اور پھر ائیر ٹائیٹ گرم ہیلمٹ چڑھا دیا جاتا ہے‘ سنوبائیک چلانے سے پہلے طبی معلومات بھی لی جاتی ہیں‘ فٹنس بھی چیک کی جاتی ہے اور یہ بانڈ بھی لیا جاتا ہے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو گیا تو کمپنی ذمہ دار نہیں ہو گی اور پھر گائیڈ کی نگرانی میں سنوبائیکس دے دی جاتی ہیں۔
سنوبائیک کے نیچے ٹینک جیسی گراریاں لگی ہوتی ہیں‘ گراریاں برف میں پھنس کر بائیک کو آگے دھکیلتی رہتی ہیں‘ یہ خاصا مشکل اور تکنیکی کام ہوتا ہے‘ برف پر موٹر سائیکل سنبھالنا آسان نہیں ہوتا اور برف بھی سمندر کی ہو‘ جی ہاں ہم نے سمندر کے اوپر سنوبائیک چلانی تھی‘ دسمبر میں فن لینڈ کا سمندر جم جاتا ہے اور اس پر سنوبائیکس چلتی ہیں لہٰذا ہم نے منجمد سمندر پر پورا گھنٹہ بائیک چلا کر آئس بریکر بحری جہاز تک جانا تھا‘ ہم نے یہ کام شروع تو کر دیا لیکن آپ یقین کریں یہ زندگی کا مشکل ترین کام تھا۔
ہم جمے ہوئے سمندر کے اوپر تھے‘ گائیڈ ہمارے آگے آگے بائیک چلا رہا تھا‘ ہم نے ہر صورت اس کے پیچھے رہنا تھا‘کیوں؟ کیوں کہ برف میں جگہ جگہ کریکس تھے‘ ہمارے سلپ ہونے کی دیر تھی اور ہم کسی نہ کسی گڑھے میں گر کر میلوں برف کے نیچے جا سکتے تھے اور وہاں سے ہماری لاش بھی واپس نہیں آ سکتی تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ اوپر برف کی میٹر موٹی تہہ ہوتی اور نیچے ہزاروں میل لمبا سمندر اور ہم سمندر کے کس کونے میں جاگرتے؟ کوئی مشین یہ اندازہ نہیں کر سکتی تھی چناں چہ ہم سمندر کے اوپر گائیڈ کے پیچھے پیچھے بائیک چلاتے رہے۔
برف کے صحرا کے علاوہ دور دور تک کچھ نہ تھا‘ صرف ہم تھے‘ ہمارے موٹر سائیکل تھے‘ ان کی چیخیں تھیں اور ہمارا خوف تھا‘ درجہ حرارت منفی چالیس تھا‘ ہم مکمل پیک تھے لیکن اس کے باوجود سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی‘ ہمیں راستے میں برف کے کریکس اور برف پر پڑی مچھلیاں نظر آ رہی تھیں‘ بائیکس ہماری ٹانگوں کے نیچے سے سلپ ہو رہی تھیں لیکن ہمارے پاس انہیں سنبھالنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میں نے زندگی میں بے شمار ”ویلڈرنیس“ دیکھی ہیں لیکن سمندر کے اوپر برف اور اس برف پر بائیک اور دور دور تک زندگی کا نشان نہیں تھا۔
زندگی کے آثار دکھائی نہ دیں تو انسان کو دماغ کے اندر خارش محسوس ہوتی ہے‘ ریڑھ کی ہڈی پر چیونٹیاں سرکتی ہیں اور ہم اس وقت اس عمل سے گزر رہے تھے‘ہم بہرحال آئس بریکر کے قریب پہنچ گئے‘ ہمیں برف کے صحرا میں دور سے کوئی پرندہ اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا‘ ہم رک گئے‘ پرندہ بعدازاں بحری جہاز بن گیا‘ وہ ہمارے سامنے رکا‘ سیڑھی لگی اور ہم برف پر چلتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گئے‘ جہاز کے مسافروں نے عرشے پر کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا۔
وہ حیران تھے ہم برفیلے سمندر میں اچانک کہاں سے نکل آئے ہیں‘ بحری جہاز نے ہمیں لیا اور یہ برف توڑ کر آگے بڑھنے لگا‘ برف کے ٹکڑے ٹوٹ رہے تھے‘ برف ٹوٹنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں‘ عملے نے ہمیں تیراکی کا لباس پہنایا‘ جہاز روکا اور ہمیں ایک ایک کر کے ٹوٹی ہوئی برف کے درمیان سمندر میں اتار دیا‘ مجھے تیراکی نہیں آتی تھی لیکن میں بھی دوسروں کے ساتھ پانی میں اتر گیا اور برف کے ایک تودے کے ساتھ سر ٹکا کر لیٹ گیا‘ میرے دائیں بائیں موجود لوگ جو کر رہے تھے میں نے بھی ویسے کرنا شروع کر دیا۔
لباس بھی فلوٹنگ تھا چناں چہ میں برف اور پانی میں فلوٹ کرنے لگا‘ یہ تجربہ بھی لائف ٹائم تھا‘ ہم نے تیراکی کے بعد دوبارہ سنو بائیک کی یونیفارم پہنی اور برف پر پیدل چلتے ہوئے بائیکس تک آ گئے‘ ہم نے بائیکس لیں اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا‘ شام ہو چکی تھی‘ ہمارے چاروں طرف دھند تھی‘ سردی تھی‘ خوف تھا‘ سنوبائیکس کی چیخیں تھیں اور آئس ویلڈرنیس تھی‘ ہم برف پر تیرتے چلے جا رہے تھے‘ ہم بائیک سٹیشن پر واپس آ گئے‘ لباس واپس کیے‘ اپنے کپڑے پہنے اور سنو کاسل میں چلے گئے۔
فن لینڈ میں ہر سال برف کے قلعے بنائے جاتے ہیں‘ یہ نیچے سے اوپر تک برف کے قلعے ہوتے ہیں‘ برف کا فرش‘ برف کی دیواریں اور برف کے گنبد اور ان گنبدوں کے نیچے برف کی میزیں‘ کرسیاں‘ تھیٹر اور چرچ‘ یہ کمرے بھی کرائے پر ملتے ہیں‘ قلعے میں برفانی بیڈروم ہوتا ہے‘ دیواریں اور چھتیں برف کی ہوتی ہیں‘ صرف گدا سپرنگ کا ہوتا ہے اور اس پر کمبل اور بیڈشیٹ برف کی نہیں ہوتی‘ باقی ہر چیز برفانی ہوتی ہے حتیٰ کہ گلاس‘ پلیٹیں اور چمچ بھی برف کی ہوتی ہیں۔
ہم یہ قلعہ دیکھ کر حیران رہ گئے‘ دیواروں پر برف کھود کر مجسمے بنائے گئے تھے اور ہر مجسمہ آرٹ کا اعلیٰ نمونہ تھا‘ فرنٹ ڈیسک بھی برف کا تھا صرف لوگ اصلی تھے‘ ہم نے بیڈرومز بھی دیکھے‘ ایک رات کا کرایہ پانچ سو یورو تھا لیکن اس سال میونسپل انتظامیہ نے انہیں کمرے کرائے پر دینے کی اجازت نہیں دی تھی‘ وجہ بہت دل چسپ تھی‘ کامی میں جب تک کمرے میں دھویں کا سائرن نہیں لگتا اس وقت تک کمرہ کرائے پر نہیں دیا جا سکتا اور قلعہ بناتے وقت مالکان یہ اصول بھول گئے تھے چناں چہ میونسپل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا یوں ہمیں کمروں میں لیٹ کر تصویریں بنانے کا موقع مل گیا۔
ہم آئس کاسل سے نکلے تو رات ہو چکی تھی‘ ہم کامی سے اولو کی طرف چل پڑے‘ صبح ہماری ہیلسنکی کے لیے فلائیٹ تھی‘ ہم نے ہیلسنکی جانا تھا‘ آدھا دن شہر میں گزارنا تھا اور پھر اپنے اپنے وطن لوٹ جانا تھا‘ جہانزیب اوسلو سے آیا تھا‘ مخدوم عباس پرتگال اور میں پاکستان سے‘ ہم نے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف اڑنا تھا لہٰذا ہم نے رات اولو میں گزارنے اور صبح ہیلسنکی کی فلائیٹ لینے کا فیصلہ کیا‘ برف باری جاری تھی‘ گاڑی اس بار جہانزیب چلا رہا تھا‘ یہ مخدوم عباس سے زیادہ خطرناک ڈرائیور تھا۔
یہ گاڑی چلاتے چلاتے موبائل کھول کر میسج پڑھتا تھا اور باقاعدہ ٹائپ کر کے جواب دیتا تھا‘ سڑک سنگل تھی‘ سامنے سے بھی گاڑیاں آ رہی تھیں‘ برف باری بھی ہو رہی تھی جب کہ جہانزیب میسج ٹائپ کر رہا تھا اور میں ساتھ بیٹھا کانپ رہا تھا‘ مجھے ہر گاڑی اپنی طرف آتی محسوس ہو رہی تھی اور میں ہر بار کلمہ پڑھ کر خود کو اللہ کے حوالے کر دیتا تھا۔