غالباً 2010ء کا زمانہ تھا۔ جب کراچی میں بدامنی عُروج پر تھی۔ پشتون کے ذہن میں یہ بات ٹھونس دی گئی تھی۔کہ مہاجر آپ کا قاتل ہے۔اور ہر مہاجر کی ذہن سازی ہورہی تھی۔کہ پشتون طالبان ہوتے ہیں،لہذا یہ آپ کو اور آپ کے کراچی کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ اگر پشتون رکشہ ڈرائیور کی گولیوں سے چھلنی شدہ لاش علاقے میں پہنچتی ،تو ہر حُجرے سے یہی آواز نکلتی،کہ ہمیں اس لئے مارا جارہا ہے کہ ہم پشتون ہیں اور اے این پی کیساتھ ایم کیو ایم دشمنی کررہا ہے۔کم و بیش یہی حالت گولیوں سے چھلنی شُدہ کسی مہاجر لاش کے ردعمل کے طور پر سامنے آتی۔مگر ایک بات طے تھی،کہ دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کے فائدے صرف اے این پی اور ایم کیو ایم ہی اٹھا رہی تھی۔
کراچی میں حالات اتنے خراب تھے۔کہ ہر شادی شدہ جوڑا رات کو تین تین بار صُحبت کرتا تھا،کہ مُبادا کل مارا نہ جاؤں۔ پارک ویران،مارکیٹیں ویران،زندگی بے مزہ،بس یہی ایک تفریح ہوتی تھی۔ ایک طرف اگر بندے مر بھی رہے تھے،تو الحمداللہ دوسری طرف اتنے ہی خُشوع وخُضوع سے پیدا بھی ہو رہے تھے۔
ہوا یوں کہ ایک دن کوئی اے این پی کا عہدیدار مارا گیا تھا۔تو پشتون علاقے میں سوگ کی کیفیت تھی۔ اور سڑکیں سنسان تھیں ۔مگر مجھے کسی دوست کے پاس پہنچنا تھا جو جناح ہسپتال میں زیرعلاج تھا۔ جیسے ہی مین سڑک پر آیا،تو وہاں ایک ہجوم نے زبردستی میری گاڑی روکی۔اور گاڑی سے مجھے اُتارا۔ کچھ بندے گاڑی کے شیشے توڑنے لگے۔ اور کچھ نے مُجھے مارنا شروع کیا۔ مجھے گاڑی کے شیشے توڑنے اور اپنے مارنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بس اعتراض اس بات پر تھا،کہ ان میں سے موجود ایک لڑکا میرا موبائل میری جیب سے نکال رہا تھا۔اور بالاخر میں نے پشتو میں گالیاں بکنی شروع کردیں۔اور تمام پشتون مجھے چھوڑ کر خوشگوار حیرت سے دیکھنے لگے۔میں نے سنبھل کر دیکھا تو گاڑی کے شیشے ٹوٹے پڑے تھے۔اور میرا گریبان بھی اپنی حالت زار بیان کررہا تھا۔میں نےاس ہجوم سے مخاطب ہوکر کہا۔کہ کم از کم دیکھا تو کرو کہ بندہ کون ہے؟
جواب ملا کہ ایک تو پینٹ شرٹ پہنی ہے۔دوسرا مونچھیں بھی نہیں ہیں۔تو ہم کیسے سمجھیں؟کہ آپ پٹھان ہو۔
سو میری مونچھوں کی کہانی یہی سے شروع ہوگئی۔
گھر آیا،بیگم نے کہا،مونچھیں رکھ لو۔ میں نے کہا کہ اگر رکھنی ہے،تو مونچھوں کا باپ رکھونگا، ورنہ نہیں رکھونگا۔
اس دن کے بعد ہم نےمونچھیں رکھنی کیا تھیں، پالنی شروع کردیں۔ کچھ عرصے میں ہم غائب ہوگئے اور بس مونچھیں ہی رہ گئیں۔
جب میرے جیسا بندہ لوڈڈ پستول ہاتھ میں لیکر شہر جاتا تھا۔اور والد صاب ہر صبح فون کرکے کہتے تھے۔کہ پسٹل چیک کرلو لوڈ ہے؟کوئی بھی مشکوک بندہ جس پر ہلکا سا بھی شک ہو قریب آنے کی کوشش کرے۔ تو ڈبل مائنڈڈ مت ہونا،سیدھی گولی مار دینا۔ اور ہر صبح میری ڈرپوک بیگم میرے جانے سے پہلے میرا پسٹل ہولسٹر ہاتھ میں لیکر مجھے رخصت کرتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پسٹل رکھنے کے باوجود بھی ہم ناظم آباد سیف اللہ ہوٹل پر تین بار لُوٹےگئے۔
پشتون علاقے سے گزرنا ہوتا تھا ۔تو ڈیش بورڈ میں چُھپائی گئی اے این پی کی سُرخ ٹوپی نکال کر اور گریبان کے پانچوں بٹن کھول کر ہم گلزار عالم کا انقلابی گانا لگادیتے۔ لوگ سمجھتے کہ شاید ننانوے قتل کرکے آیا ہے،اور سوواں کہیں آس پاس ڈھونڈ رہا ہے۔
لالُو کھیت کے علاقے سے گزرتے،تو ٹوپی ڈیش بورڈ میں چھپا کر بٹن بند کرکے، بھائی والا ریبین چشمہ لگا کے اور منہ میں پان رکھ کر نکلتے،لوگ سمجھتے کہ بھائی ہے اپنا۔
حالات نے 2013 میں ایکدم پلٹا کھایا۔ آپریشن شروع ہوگئے۔لوگوں کی گھبراہٹ میں کمی آئی۔تو ہم نے مُونچھوں کو تیل کی بجائے جیل(Gel)لگانی شروع کردی۔ اور نوکیں بنالیں۔ قلمیں چھوٹی کرلیں۔رینجر دیکھتے ہی الرٹ ہوجاتی۔کہ شاید کسی حساس ادارے کا کوئی افسر ہے۔
2014 میں دھرنے شروع ہوگئے۔تو واللہ جتنا ہم اس مونچھوں سمیت ناچے ہیں۔جتنی کمر بقول ابو علیحہ کی مٹکائی ہے۔کوئی انصافی فقط سوچ ہی سکتا ہے۔ ایک دن ناچتے ناچتے پتہ چلا،کہ مونچھیں دانشور اور ادیب بھی رکھتے ہیں۔تو لالہ صحرائی کے چرنوں میں لیٹ گئے۔ اور اج الحمدللہ یار دوست دانشور بھی سمجھ رہے ہیں۔
مونچھوں نے بڑے فائدے دیئے۔مگر جتنا نقصان ہم نے ان مونچھوں کیوجہ سے کابل میں اٹھایا ہے ۔شاید آپ لوگوں نے پڑھ لکھ کر بھی نہیں اُٹھایا ہوگا۔کابل میں ہر دھماکے کے بعد ہماری پیشی لازمی ہوتی تھی۔ایک بار ہم نے احتجاج کیا۔کہ یہ ظلم ہے۔تو وہاں کے مقامی پولیس کے افسر نے خشمگیں نگاہوں سے گھورا،کہ شکل سے عیسائی لگتے ہو؟
ہم نے فوراً کلمہ پڑھ کر سنایا۔کہ جناب الحمداللہ مسلمان ہوں۔ مگر وہ مجھے باربار عیسائی کہتا رہا۔ آدھے گھنٹے کے بعد معلوم ہوا،کہ کابلی والے آئی ایس آئی کہنا چاہ رہے تھے۔
آجکل نوکیں کم کرلیں ہیں۔کیونکہ بیگم نے نوکیں چُھبنے کی شکایت کی ہے۔اور جو لالہ لالہ کہہ رہی ہیں،ان کو بال چُبھ رہے ہیں۔