296

روحانی محافل۔۔ دوا بھی دعا بھی


ہوش سنبھالنے سے لیکرقبرکی پاتال میں اترنے تک انسان مال،اولاد،شہرت اورعزت کیلئے مارا مارا پھرتا ہے۔ جب تک جان بے جان اورروح پروازنہ کرجائے اس وقت تک انسان اس حرص سے نہیں نکلتا۔ہم میں سے اکثرانسانوں کی مثال اورکہانی اس بچے جیسی تو ہے جسے ماں یاباپ نے سوداسلف یاکوئی اورضروری چیزلانے کے لئے گھرسے دکان یابازارکی طرف بھیجامگر وہ گھرسے نکلنے کے بعدراستے میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں اس قدر مشغول اورمصروف ہوگیاکہ وہ گھرسے آنے یانکلنے کامقصدہی بھول گیا۔ہم بھی اس دنیامیں یونہی تونہیں آئے۔ہمیں بھی آخرکسی نے کوئی کام،کوئی مقصد اورکوئی مشن دے کربھیجا۔ آج مال،اولاد،شہرت اورعزت سمیت دنیاکے یہ دیگرکام توہم سب کو یادہیں لیکن افسوس۔ جس مقصداورجس کام کے لئے ہم اس دنیامیں آئے وہ کام اورمقصدآج ہم میں سے اکثر کو یاد نہیں۔

ہم بھی اس بچے کی طرح اپنے مقصداور کام کوبھول کرآج دنیاکے اس راستے اوربازارمیں مال،اولاد،شہرت اورعزت پانے کے لئے آنکھ مچولیاں کھیلنے میں مصروف ہیں۔اصل مقصداورراہ سے بھٹکنایہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے آج ہم سب مارے مارے پھررہے ہیں۔آج ہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔چین اورسکون بھلاہوبھی کیسے۔۔؟راہ سے بھٹکنے والوں کیلئے بھی کبھی کوئی چین اورسکون ہوتاہے ۔؟آج ہم دنیاکے بازارمیں مال،اولاد،شہرت اورعزت کے سودے کرکے چین اورسکون توتلاش کررہے ہیں مگرجہاں حقیقی معنوں میں چین ،سکون،قراراورآرام ہے وہاں جاناہی ہم نے چھوڑدیاہے۔ہم مسلمان ہیں اوراس ملک میں قائم یہ مساجداورمدارس اسلام کے قلعے ہیں مگرافسوس ہم نے اسلام کے ان قلعوں کو یکسربھلادیاہے۔ آج بازار،ناچ گانوں کی محفلوں اورمیوزیکل نائٹ میں جانے کے لئے توہمارے پاس ٹائم بھی ہوتاہے اورپیسے بھی لیکن اللہ کے گھراوردرمیں حاضری لگانے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔اللہ کے دراورگھرمیں کتناچین اورسکون ہے۔؟یہ کوئی مسجداورمدرسے میں جاکردیکھیں۔ہم تورمضان،عیداورجمعے والے لوگ ہیں۔ہمیں ان مساجد اور مدارس سے کیا۔؟ ان دینی مدارس کی اہمیت اورقدروقیمت توکوئی مانسہرہ کے مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی جیسے علماء ،صلحاء اوراولیاء سے پوچھیں جوہوش سنبھالنے سے لیکراب تک اللہ کے ان گھروں اوردروں پرچوکیداری دیئے بیٹھے ہیں۔

مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔بچپن سے جوانی اورپھرجوانی سے اب بڑھاپے تک انہوں نے اپنی ساری زندگی قال اللہ اورقال رسول اللہﷺ کی صدابلندکرتے ہوئے گزاری۔سوسے زائدکتابیں لکھنے کے ساتھ دین اسلام کی سربلندی کے لئے وہ کونساکام اوراقدام ہے جوحضرت نے نہیں اٹھایا۔تحریک ختم نبوت ہو،عشق صحابہ ہو،مسئلہ قادیانیت ہو،آپ دین کی سربلندی کے لئے اسلام کے خلاف ہرسازش کوناکام بنانے کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آپ نے بین المذاہب ہم اہنگی اورہزارہ سمیت ملک بھرمیں امن کے قیام کے لئے بھی ہمیشہ اہم کرداراداکیا۔گلگت سے کراچی اورچترال سے کشمیرتک ملک بھرکے علمائے کرام،سیاستدان،دانشوراورعلمی حلقے آپ کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس وقت ملک بھرمیں مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی کے درجنوں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں شاگرد اور مرید ہیں۔ مانسہرہ میں آپ کاایک بہت بڑا لڑکیوں کامدرسہ ہے جس میں قوم کی درجنوں بیٹیاںخودکوتعلیم کے زیورسے آراستہ کررہی ہیں۔ طالبات کی سندفراغت اورتعلیمی کورس مکمل کرنے کی وجہ سے دیگردینی مدارس کی طرح اس مدرسے میں بھی ہرسال ختم بخاری شریف کے سلسلے میں ایک بابرکت اورپرنورمحفل وپروگرام کاانعقادکیاجاتاہے۔

گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی جب قاضی صاحب نے اپنے مدرسے میں ختم بخاری شریف کے لئے پروگرام کاانعقادکیاتوپروگرام سے ایک دن پہلے کال کرکے پروگرام کی یاددہانی اور شرکت کی تاکیدکی۔پروگرام چونکہ اتوارکوتھااوراتوارکادن ویسے بھی ہمارانیندکے سائے تلے بسترپرگزرتاہے اس لئے ہم نے اس موقع اوردن کوغنیمت سمجھ کرنہ صرف قاضی صاحب سے وعدہ کیابلکہ ہرحال میں جانے کاپکاٹکاارادہ بھی کرلیا۔ویسے اتواروالے دن کے پروگراموں،محفلوں،شادی بیاہ اوردیگرناچ گانوں کی تقریبات پرنہ صرف ہم ناک چڑھاتے ہیں بلکہ نہ جانے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ بھی ایڈوانس میں تراش لیتے ہیں لیکن پروگرام،تقریب یامحفل اگردنیانہیں دین کاہوتوپھرہم ،،یس سر،،کے سواکچھ نہیں کہتے۔ختم بخاری شریف،ختم نبوت اور عظمت قرآن جیسی بابرکت پروگراموں،محفلوں اورتقریبات میں شرکت کوہم کل بھی اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے اورہم آج بھی اسے اپنے لئے آخرت میں نجات کاایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ہماری تودعاہے کہ اس ابدی دنیامیں بھی ہمارااٹھنابیٹھناقاضی اسرائیل گڑنگی جیسے اللہ والوں کے ساتھ ہو۔خیر۔اتواروالے دن جب ہم قاضی صاحب کے مدرسے جامعہ البنات صدیقہ کائنات اپرچنئی پہنچے توبرادرم مولاناطارق نعمان گڑنگی نے ہمارااستقبال کیا۔مدرسے میں قرآن مجیدفرقان حمیدکے ننھے منھے حافظوں کودیکھ کردل باغ باغ ہوگیا۔قرآن شریف کی یہ کتنی بڑی کرامت ہے کہ گیارہ اوربارہ سال کے بچوں نے اسے اپنے سینوں میں محفوظ کرلیاہے۔اسی لئے تواللہ تعالیٰ نے منکرین قرآن کوچیلنج کرتے ہوئے فرمایاکہ میں خداہی اس قرآن کی حفاظت کرونگا۔اللہ اکبر۔

انسان دنیاکی کوئی کتاب تودوراس کے چندصفحے بھی ازبریادنہیں کرسکتالیکن قرآن مجیدکی جب بات آتی ہے تووہ خدابچوں کے سینوں میں بھی محفوظ کرلیتاہے۔قاضی صاحب کے مدرسے میں اس سال چاربچوں نے قرآن شریف کوحفظ کیااورمزے کی بات یہ کہ چاروں بچوں کی عمریں پندرہ سال سے کم ہونگی۔اس کے ساتھ جامعتہ البنات صدیقہ کائنات سے قوم کی پانچ بیٹیوں نے اس سال سندفراغت حاصل کی ۔اس روحانی محفل میں حفظ مکمل کرنے والے بچوں کی دستاربندی کے ساتھ بالائی منزل پرپردے میں قوم کی ان پانچ بیٹیوں کی چادرپوشی بھی کی گئی۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جن کے بچوں اوربچیوں کواللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لئے قبول فرمایا۔اس محفل میں جہاں قاضی صاحب جیسے کئی بلندپایہ خطباء کی وعظ ونصیحتوں کوسننے کاشرف حاصل ہواوہیں مولاناقاضی ارشدالحسینی اورمولاناقاضی خلیل احمدصاحب جیسے اللہ کے ولیوں اوربزرگوں کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔اللہ کے گھراوردرپرسرجھکانے کااپنامزہ اوراللہ کے دوستوں اورمہمانوں کودیکھنے میں اپناایک لطف ہے۔ختم قرآن اورختم بخاری شریف سمیت ایسے بابرکت دینی پروگراموں،محفلوں اورتقریبات کاواقعی اس دنیامیں کوئی نعم البدل نہیں۔ایسی محفلیں۔۔ایسے پروگرام اورایسی تقریبات یہ بلاکسی شک وشبہ کے دکھی دلوں کے لئے دوابھی ہے اوردعابھی۔رب کریم سے دعاہے کہ وہ حضرت قاضی اسرائیل گڑنگی صاحب سمیت دین کی سربلندی ،اشاعت وترویج کے لئے کام اورمحنت کرنے والے تمام مسلمانوں کی قربانیوںاورکوششوں کواپنے دربارمیں قبول ومنظورفرماکران دینی اداروں کواس ملک میں دن دوگنی اوررات چوگنی ترقی،کامیابی اورکامرانی نصیب فرمائے تاکہ ہمارے جیسے گنہگاربھی دین اسلام کے ان قلعوں سے فیض وروشنی حاصل کرتے رہیں۔آمین ثم آمین