Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
60

سویڈن میں قرآن جلانے والے عراقی عیسائی سلوان مومیکا کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا ہے۔

سویڈن میں قرآن جلانے والے 38 سالہ عراقی عیسائی سلوان مومیکا کو بدھ شام سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر لائیو نشریات کے دوران سٹاک ہوم کے نواحی علاقے سودرٹیلیا کے ایک اپارٹمنٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ موصوف نے مشہور ہونے اور اسلام کے خلاف نفرت کے اظہار کے طور پر ماضی میں متعدد مرتبہ قرآن جلایا تھا اور اس پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر عدالت میں ایک مقدمہ بھی چل رہا تھا۔ ضلعی عدالت نے اس کے جاری مقدمے میں فیصلہ ملتوی کر دیا ہے کیونکہ ایک مرنے والے شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ سویڈش مائیگریشن بورڈ کے مطابق اسے ایک تجدیدی رہائشی اجازت نامہ دیا گیا تھا کیونکہ قرآن جلانے کی وجہ سے اسے اپنے آبائی ملک عراق جانے پر جسمانی تشدد اور قتل کرنے  کا خطرہ تھا۔

سلوان مومیکا کے قتل کا واقعہ عوامی دلچسپی کا حامل ہوگیا ہے کیونکہ یہ براہ راست ٹک ٹاک پر نشریات کے دوران پیش آیا تھا اور اس میں قتل ہونے والے معروف شخص کا تعلق سابقہ ہائی پروفائل واقعات سے تھا۔ صحافتی اخلاقیات کے اصولوں کے مطابق، میڈیا آؤٹ لیٹس کو حادثات اور جرائم کے معاملات میں نام شائع کرنے میں محتاط رہنا چاہیے، لیکن اگر عوامی مفاد واضح ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ راسمس اوہمان اس مقدمے میں پراسیکیوٹر ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سلوان مومیکا ہی تھا جو اب مر گیا ہے۔

پولیس کے پریس ترجمان ڈینیل وکڈہل کے مطابق رات 11 بجے کے کچھ دیر بعد پولیس کو اس واقعے کی اطلاع ملی اور انہوں نے پانچ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور سبھی اس قتل کے مشتبہ ہیں۔ پولیس گھر کے اندر اور باہر چاروں طرف تحقیقات کررہی ہے۔

سویڈش اخبار ‏Aftonbladet کے مطابق پولیس جس نظریے پر کام کر رہی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجرم اپارٹمنٹ کی عمارت کی چھت سے داخل ہوا تھا۔ قرآن جلانے والا سلوان مومیکا ٹک ٹاک پر لائیو سٹریمنگ کر رہا تھا اور اسے درمیان میں ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مومیکا 2023 میں سویڈن میں قرآن جلانے کے دوران قومی سطح پر مشہور ہوا تھا، اسلام کے خلاف اسکے مظاہروں نے سویڈن کے نیٹو میں شمولیت کے عمل کے دوران ایک سفارتی بحران پیدا کردیا تھا کیونکہ ترکی نے سویڈن کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔

مومیکا پر 2023 میں چار مختلف مرتبہ قرآن جلانے کے سلسلے میں مسلمانوں کے خلاف اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور عدالتی فیصلہ آج صبح 11 بجے متوقع تھا۔ ضلعی عدالت نے ایک پریس ریلیز میں اعلان کیا ہے کہ وہ فیصلے کو ملتوی کر رہی ہے، چونکہ اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ مدعا علیہان میں سے ایک کی موت ہو گئی ہے، لہذا اس سزا کو اس حقیقت کے مطابق ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے کہ کسی متوفی کو سزا دینا ممکن نہیں ہے۔

سویڈش نیشنل پولیس کمشنر نے اس بات کو مسترد نہیں کیا ہے کہ سویڈش انٹیلی جنس اجنسی Säpo اس واقعے کی تحقیقات کرسکتی ہے، فی الحال پولیس اور سویڈش پراسیکیوشن اتھارٹی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ سویڈن کے لیے یہ ضروری ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی سروس اس مسئلے کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ آیا یہ ہمیں سویڈن کی سیکیورٹی کے بارے میں چوکس رہنے کی وجہ فراہم کرتا ہے، لیکن وزیر انصاف گنر سٹرومر کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب دینا فی الحال قبل از وقت ہے۔

سویڈش مائیگریشن بورڈ کے پریس افسر جیسپر ٹینگروتھ نے گزشتہ سال سویڈش اخبار افٹن بلیڈیٹ کو بتایا تھا کہ اگر وہ اپنے آبائی ملک عراق واپس چلا جاتا ہے تو اسے تشدد اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے، اسی خطرے کی بنیاد پر گزشتہ سال مئی میں سویڈش مائیگریشن بورڈ نے اسے ایک سال کا اسائلم ویزہ دیا تھا۔ قرآن جلانے والے عراقی عیسائی مومیکا نے سویڈش مائیگریشن بورڈ کو ایک ای میل میں لکھا تھا، شاید میں سویڈن یا یورپ میں واحد حقیقی پناہ گزین ہوں جسے مدد کی ضرورت ہے، میں سویڈن کا شکر گزار ہوں اور میں تمام قانونی ظلم و ستم کے باوجود سویڈن اور اس کے لوگوں سے محبت کرتا ہوں۔ جب سے میں نے قرآن جلانے کا مظاہرہ کیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تب سے مجھے سویڈن میں اس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قرآن جلانے والے نے لکھا، “یہاں تک کہ سویڈن کی عدالتوں نے بھی کئی معاملات میں میرے ساتھ برا سلوک کیا اور میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، خاص طور پر پناہ کے معاملے میں میری ٹھیک طرح مدد نہیں کی گئی ہے۔