Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
200

سیاسی طوطے کی جان پنجاب اسمبلی میں

بچپن میں ہم کہانیاں پڑھا کرتے تھے کہ جادوگر نے خوبصورت شہزادی کو قید کر رکھا ہے اور جادوگر تک پہنچنا بہت مشکل ہے اگر کوئی شہزادہ جان جوکھوں میں ڈال کر جادوگر تک پہنچ بھی جاتا تو وہ طاقتور جادوگر سے مقابلہ نہ کر پاتا آخر کار اسے پتہ چلتا کہ جادوگر کی جان فلاں جگہ پر رکھے ہوئے پنجرے میں بند طوطے میں ہے اور جب وہ شہزادہ بڑی مشکلوں کے بعد اس پنجرے تک پہنچ جاتا تو وہ جونہی پنجرے سے نکال کر طوطے کی گردن مروڑتا سب جادو فشوں ہو جاتا اور شہزادہ شہزادی کو رہا کروا کر لے جاتا اسی قسم کا معاملہ ہمارے سیاسی سیٹ اپ کے ساتھ ہے تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان جلد الیکشن کروانے کے لیے پچھلے آٹھ نو ماہ سے مختلف جتن کر رہے ہیں اتنی لمبی اور جان لیوا جدوجہد کے بعد عمران خان کو پتہ چلتا ہے کہ اس سارے سیاسی سیٹ اپ کی جان پنجاب اسمبلی کے طوطے میں ہے جب تک پنجاب اسمبلی کے طوطے کی گردن نہیں مروڑی جاتی اس وقت تک باقی تمام جتن فضول ہیں چنانچہ عمران خان باقی سارے کام چھوڑ کر پنجاب اسمبلی کو توڑنے پر لگ جاتے ہیں لیکن جادوگر بھی بہت ہی کرو قسم کا ہے وہ عمران خان کا ہاتھ پنجاب اسمبلی کی گردن تک پہنچنے نہیں دے رہا وہ درمیان میں کوئی نہ کوئی ایسی رکاوٹ ڈال دیتا ہے عمران خان پھر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے عمران خان بھی اپنی ضد کا پکا ہےوہ جس کام کے پیچھے پڑ جاتا ہے کر کے ہی چھوڑتا ہے اس کا ماضی بتاتا ہے کہ لوگ کہتے تھے یہ کبھی فاسٹ باولر نہیں بن سکتا اس نے اتنی محنت کی کہ آخر کار وہ دنیا کا ٹاپ کلاس کا باولر بن گیا پھر اس نے دنیا کرکٹ پر حکمرانی کا تہیہ کر لیا اور آخر کار وہ ورلڈ کپ جیت کر واپس مڑا پھر اسے اپنی والدہ کی وفات کے بعد کینسر ہسپتال کے قیام کی سوجی ساری دنیا کے ماہرین نے بتایا کہ یہ بہت مہنگا پراجیکٹ ہے تم نہیں کر پاو گے اگر تم نے ہسپتال بنا بھی لیا تو یہ چل نہیں پائے گا عمران خان نے نہ صرف ہسپتال بنایا بلکہ اب تو کئی ہسپتال بنا لیے ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل بھی رہے ہیں

جنگل میں بین الاقوامی معیار کی نمل یونیورسٹی بھی بنا دی جہاں غیر ملکی فیکلٹی بھی مہیا کر دی پھر نہ جانے اسے کس نے سیاست میں آنے کا مشورہ دے دیا اور اس نے وزیر اعظم بننے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیا ایک کھلاڑی کا سیاست کی چالبازیوں سے کیا لینا دینا دنیا نے حسب روایت پھر کہا کہ عمران زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر رہا ہے اچھی بھلی عزت بنی ہوئی ہے یہ سیاست میں ذلیل ہو جائے گا اس کو اپنی زندگی کے اس مشکل ترین منصوبے میں بڑا لمبا عرصہ جدوجہد کرنا پڑی لیکن آخر کار وہ کامیاب ہو گیا 2018 کے انتخابات جیت کر وہ وزیراعظم بن گیا عمران خان نے ساری زندگی ناممکن کاموں میں ہاتھ ڈالا ہے ہر موقع پر اسے کامیابی ملی ہے اصل میں دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا اصل بات ہوتی ہے کہ آپ کس جذبے اور حوصلے سے جدوجہد کرتے ہیں کوئی جلدی حوصلہ ہار جاتے ہیں کچھ مشکلات کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر ارادے بدل لیتے ہیں اور منزل اسے ملتی ہے جو کمٹمنٹ کے ساتھ جہد مسلسل میں مصروف رہتا ہے عمران خان کو جس دن سے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا ہے وہ ایک دن بھی سکون سے نہیں بیٹھا اور نہ اس نے دوسروں کو بیٹھنے دیا ہے وہ جہد مسلسل میں لگا ہوا ہے عوام کے دلوں میں وہ گھر بنا چکا ہے اور جس لگن سے وہ کوشش کر رہا ہے آخر کار اس نے ان سب مخالف سیاستدانوں کو لے بیٹھنا ہے کیونکہ اس کے مخالفین میں سے کسی میں اس جتنی جدوجہد کا نہ حوصلہ ہے نہ سٹیمنا ہے وہ روزانہ دیوار میں ٹکر مار رہا ہے اس نے اتنی ٹکریں مار دی ہیں کہ اب دیوار ہلنا شروع ہو گئی ہے جو کسی وقت بھی گر سکتی ہے یہ آخری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ کسی طرح پنجاب اسمبلی کے طوطے کو بچا کر چار دن مزید نکال لیں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے منصوبے کے مطابق کچھ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن جو یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان تھک کر یا مایوس ہو کر بیٹھ جائے گا یہ ان کی غلط فہمی ہے وہ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی قائل نہیں بات پنجاب اسمبلی کی ہو رہی تھی شاید اب وزیر اعلی پنجاب اعتماد کا ووٹ نہ لے کر معاملات کو ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں لیکن عمران خان ایسے معاملات کو نہیں رکھنا چاہتا ٹیکنیکل پرابلم کی وجہ سے جیسے کہ عدالتی معاملہ ہے وہ کچھ انتظار تو کر سکتا ہے لیکن وہ اسے ایسے ہی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں صورتحال بڑی دلچسپ ہے تحریک انصاف صرف اس لیے چوہدری پرویز الہی کو جلد از جلد اعتماد کا ووٹ دلوانا چاہتی ہے تاکہ ان میں اسمبلی توڑنے کی شکتی آسکے اور جونہی وہ اعتماد کا ووٹ لے لیں ان سے اسمبلی تڑوا دی جائے وزیر اعلی مارچ تک کا وقت چاہتے ہیں پتہ نہیں شیخ رشید بھی مارچ تک الیکشن شیڈول آنے کی بات کرتے ہیں حکومت کے بعض اتحادی بھی اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں کیا ہوتا ہے کیا ہونے جا رہا ہے ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا