پاکستان میں مساجد کے اندر لوگ جہاں عبادت کرنے اور اپنے گناہ بخشوانے جاتے ہیں، وہیں کچھ لوگ عادت سے مجبور ہو کر یا شاید مجبوری اور غربت کے عالم میں جوتے چوری کرنے بھی جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نئے جوتے رکھنے والے اپنے جوتے بغل میں دبا کر مسجد کے اندر لے جاتے ہیں اور مسجد کے کونوں کھدروں یا مختلف خفیہ جگہوں پر جوتے چھپا کر نماز پڑھتے ہیں ایسے لوگ جہاں نماز کے دوران اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوتے ہیں اور اللہ سے رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں، وہیں انہیں اپنے چھپائے گئے جوتوں کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے، کہیں کوئی ظالم جوتے ہی غائب نہ کردے اور گھر ننگے پاؤں جانا پڑے?۔
کچھ سال پہلے راقم کو عمرہ کرنے سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا، پاکستانی مساجد کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے مسجد الحرام میں دو کام کیئے، اوّل جس دروازے سے اندر داخل ہوتا تھا اسکا نام یاد رکھتا، دوم جوتوں کے ریک نمبر یاد رکھنے کی کوشش کرتا، ایک جوتا کہیں رکھتا تو دوسرا کہیں اور۔۔۔ دو تین دن تک تو یہ فارمولا کامیابی سے چلتا رہا، چوتھے دن واپسی پر جب بہت کوشش کے باوجود جوتے نہ مل سکے تو باہر نکل کر دروازے سے جو اچھے جوتے نظر آئے، میں نے بھی وہی پہن لیئے?، اللہ میرے عمرے قبول فرمائے، مجبوری کے عالم میں یہی بہتر نظر آیا، جو کردیا?۔
سویڈش شہر سٹاک ہوم میں ہمارے دوست ایڈووکیٹ شفقت کھٹانہ صاحب نے دو بڑے ہال ضلعی حکومت سے کرایہ پر حاصل کر رکھے ہیں، جن میں سے ایک مسجد اور دوسرے کو کمیونٹی سنٹر ڈیکلیئر کیا ہوا ہے، کرونا ایس اوپیز کے تحت ایک وقت میں پچاس بندوں کا ایک ایک میٹر کے فاصلے کو برقرار رکھ کر اجتماع ہوسکتا ہے، اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دونوں ہالز میں ایک وقت میں سو سو پاکستانی بھائیوں نے عید نماز ادا کی، سات بجے سے لیکر دس بجے تک تقریباً دس مرتبہ عید کی جماعت کروائی گئی اور تقریباً ایک ہزار نمازیوں نے نماز عید پڑھی، اس دوران ایک صاحب کے جوتے چوری ہوگئے، اللہ جانتا ہے جوتے چوری ہوئے یا کوئی غلطی سے پہن کر چلا گیا، جو بھی ہوا بہت بُرا ہوا، ان صاحب کو ادھار کے جوتے پہن کر گھر جانا پڑا اور بعد میں وہ جوتے واپس دینے مسجد دوبارہ آنا پڑا?۔ پچھلے پندرہ سالوں میں ایسا واقعہ میرے سامنے پہلی دفعہ وقوع پذیر ہوا ہے، یہاں ہر شخص امیر ہے، پورے ملک میں کوئی شہری بھی غریب نہیں ہے، اسلیئے کوئی جوتا چوری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، بہرحال جو بھی ہوا ہے جوتا غائب تو ہوا ہی ہے ناں??۔
کچھ دن قبل جرمن شہر برلن کے سیلنڈورف نامی علاقے میں اچانک لوگوں کے گھریلو باغیچوں سے عام پہننے والے اور سپورٹس کے جوتے چوری ہونے شروع ہوگئے، علاقہ مکینوں نے پریشانی کے عالم میں ایک نیوز ویب سائیٹ پر شکایات درج کرنا شروع کردیں، جب درجنوں کے حساب سے جوتے چوری ہوگئے تو آخرکار ایک مقامی شخص نے چور ڈھونڈ ہی نکالا، چور دراصل کوئی انسان نہیں بلکہ ایک جنگلی لومڑی تھی، جو نیلے رنگ کے جوتے منہ میں دبائے ایک جانب بھاگ رہی تھی، پیچھا کرنے پر اس شخص نے ایک جگہ سو سے زائد جوتوں کا ڈھیر دیکھا، اسکے اپنے سپورٹس کے جوتے بھی چوری ہوچکے تھے، لیکن بدقسمتی سے اسکے جوتے اس ڈھیر میں موجود نہیں تھے???۔
#طارق_محمود