266

شکایات کا ازالہ

انصاف کی فوری فراہمی اور شکایات کے فوری ازالے کے معاملے میں برطانیہ نے ایک ایسا نظام وضع کر رکھا ہے کہ افراد ہوں یا محکمے کوئی تجارتی ادارہ ہو یا کوئی چیریٹی آرگنائزیشن انہیں اپنی کارکردگی اور اہلیت کے بارے میں کئے گئے کسی بھی قسم کے اعتراض پر متعلقہ اتھارٹی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ یہاں کسی بھی ادارے یا محکمے سے متعلق کی گئی کوئی شکایت(خواہ وہ ٹیلی فون کے ذریعے کی گئی ہو یا خط اور ای میل کے ذریعے) رائیگاں نہیں جاتی۔ ہر شکایت کا بروقت نوٹس لے کر اس کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ چند برس قبل میرے بینک کارڈ پر نیویارک میں دوبار تقریباً تین سو پاؤنڈ کی رقم نکلوائی گئی جبکہ میں لندن میں تھا اور میرا بینک کارڈ میرے بٹوے میں ہی تھا۔ میں نے اپنے بینک سے رابطہ کیا جس نے فوری طور پر تحقیق کر کے رقم کی میرے اکاؤنٹ میں واپسی کا وعدہ کیا۔ اس سے پہلے کہ میں فنانشنل اتھارٹی سے رجوع کرتا یہ رقم میرے اکاؤنٹ میں کریڈٹ کر دی گئی۔ اسی طرح پچھلے دنوں میرا ایک دوست اپنی پسندیدہ چاکلیٹ کھا رہا تھا کہ اس میں سے بہت ہی چھوٹا سا ربڑ کا ٹکڑا برآمد ہو گیا۔ اس نے دو سنٹی میٹر دھاگے کے برابر اس ربڑ کے ٹکڑے کو ایک کاغذ میں لپیٹ کر ایک خط کے ہمراہ چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کے ہیڈ آفس کو بھیج دیا۔ 60پنس کی اس چاکلیٹ کے عوض اس کمپنی نے نہ صرف معذرت کا خط اور 15پاؤنڈ کا واؤچر بھیجا بلکہ اس معاملے کی بھی مکمل تحقیق کی گئی کہ ربڑ کا یہ معمولی سا ٹکڑا چاکلیٹ میں کیسے پہنچا۔ انگریزوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو اپنے اردگرد ہونے والی کسی بھی قسم کی بے ضابطگی اور قانون شکنی کا فوری نوٹس لے کر متعلقہ محکمے یا ادارے کو آگاہ کرتی ہے۔

ساؤتھ ایسٹ لندن کے جس علاقے میں مجھے اپنی کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ہر روز آنا جانا ہوتا ہے۔ وہاں دو ریٹائرڈ گوری بہنیں اس وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں جہاں کہیں کوئی کام خلاف ضابطہ ہوتے دیکھتی ہیں فوراً شکایتی خط متعلقہ محکمے یا اتھارٹی کو لکھ بھیجتی ہیں۔ بینک، بلڈنگ سوسائٹیز، مقامی کونسل، انشورنس کمپنیز، ریلویز، ورکس اینڈ پنشن ڈپارٹمنٹ، بجلی اور گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں، رائل میل اور اسی طرح اور بہت سے ادارے ان دو انگریز بہنوں کے شکایتی خطوط کا جواب دینے کے عادی ہو چکے ہیں۔معاملہ صرف خط کا جواب دینے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جن کی نشاندہی یہ دونوں گوریاں اپنے مراسلوں میں کرتی ہیں۔ برطانیہ چونکہ ایک ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی ملک ہے۔ یہاں درجنوں مذاہب، عقائد اور نسلی اقلیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ اس لئے یونائیٹڈ کنگڈم میں نسلی مساوات کا بہت خیال رکھا اور یہاں کی سماجی زندگی کے ہر شعبے میں نسلی تعصب اور نسلی منافرت کو ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یوکے میں ایک ادارہ کمیشن فار ریشنل ایکویلٹی(سی آر ای) کے نام سے نومبر 1976ء سے قائم ہے جس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے جبکہ اس کے ذیلی دفاتر مانچسٹر، کارڈف اور گلاسگو میں بھی موجود ہیں۔ یہ ادارہ نسلی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سی آر ای کی سربراہی گوروں یا سفید فام کو سونپی جاتی تھی جن پر نسلی اقلیتوں کے لوگوں کو اعتراض رہتا تھا کہ اس ادارے کی سربراہی غیر سفید فام افراد میں سے کسی کے سپرد کی جانی چاہئے۔ چنانچہ پھر نسلی اقلیتوں سے کئی لوگ اس کے کمشنر مقرر ہوئے اور یوں اس دیرینہ شکایت کا بھی ازالہ کر دیا گیا۔ برطانوی ارباب اختیار اپنے شہریوں کی شکایات کا ازالہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ سی آر ای اب تک ایسے ہزاروں تارکین وطن اور برطانوی شہریوں کو انصاف دلا چکا ہے جنہیں ان کے رنگ و نسل، مذہب یا ثقافتی پس منظر کی وجہ سے تعصب کا نشانہ بنایا گیا یا ان کی ترقی اور ملازمت کا راستہ اس لئے روکا گیا کہ وہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔

برطانیہ میں آباد تارکین وطن کو ٹوری پارٹی کی امیگریشن پالیسی سے بھی بہت سی شکایتیں ماضی میں بھی رہی ہیں اور اب بھی ان شکایتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بورس جانسن نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بھارت نژاد پریتی پٹیل کو ہوم سیکرٹری یعنی وزیر داخلہ مقرر کر دیا۔ پریتی پٹیل اگرچہ لندن میں پیدا ہوئیں لیکن ان کے والدین کا تعلق بھارت سے ہے جو کہ یوگنڈا میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ یونیورسٹی آف ایسکس کی تعلیم یافتہ یہ خاتون 2005ء کے عام انتخابات میں ناٹنگھم نارتھ کے پارلیمانی حلقے سے ناکام ہوئیں۔ 2010ء میں انہیں وٹہم (WITHAM)سے پارلیمانی امیدوار بنایا گیا جہاں سے وہ پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں جس کے بعد سے وہ اب تک ہر جنرل الیکشن میں کامیاب ہوتی چلی آئی ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون کے دور حکومت میں وہ منسٹر آف سٹیٹ فار ایمپلائمنٹ مقرر ہوئیں اور انہیں پارلیمنٹ میں کنزرویٹیو فرینڈز آف اسرائیل کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے اسرائیلی حکومت کے نمائندوں سے چند ایسی ملاقاتیں بھی کیں جو برطانوی حکومت کے پروٹوکول میں شامل نہیں تھیں۔ چنانچہ برطانوی میڈیا نے ان ملاقاتوں پر خوب واویلا کیا جس کے بعد پریتی پٹیل کو سیکرٹری آف سٹیٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے منصب سے محروم ہونا پڑا۔ جولائی 2009ء میں ہوم سیکرٹری کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے برطانیہ میں پوائنٹس بیسڈ امیگریشن سسٹم متعارف کروایا اور روانڈا کے ساتھ اسائلم ڈیل کی بنیاد رکھی۔ اس ڈیل یا سکیم کے تحت برطانیہ میں آباد غیر قانونی تارکین وطن یا سیاسی پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجا جانا تھا۔ برطانوی ہائی کورٹ سے بھی اس کی منظوری لے لی گئی۔ غیر قانونی تارکین وطن اور اسائلم سیکرز کی پہلی فلائٹ 14جون 2022ء کو برطانیہ سے روانڈا جانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں لیکن یوروپئین کورٹ آف ہیومن رائٹس کی مداخلت پر اس پرواز کو منسوخ کیا گیا۔ پریتی پٹیل کے اقدامات اور امیگریشن پالیسی کی نئی سے نئی سکیموں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ امیگرنٹس کے خلاف ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کے انسانی حقوق کو درخوراعتنا نہیں سمجھتیں۔

جب سے وہ ہوم منسٹر بنی ہیں تب سے 10ہزار سے زیادہ تارکین وطن کو برطانیہ بدر کیا جا چکا ہے جن پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ مختلف طرح کے جرائم میں ملوث تھے۔ برطانیہ میں جو غیر قانونی تارکین وطن مقیم ہیں انہیں کسی بھی طرح کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب یہ لوگ زندہ رہنے کے لئے چوری چھپے کوئی کام کرتے ہیں تو اسے بھی جرم شمار کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں پریتی پٹیل نے پاکستان کے ساتھ بھی ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان غیر قانونی امیگریشن کا سدباب کیا جائے گا بلکہ ان تارکین وطن کو برطانیہ سے پاکستان بھیجا جا سکے گا جو کسی قسم کے جرم میں ملوث ہوں گے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ ہے لیکن درحقیقت یہ ان امیگرنٹس کے خلاف ایک تازیانہ ہے جو اپنی تمام تر کشتیاں جلا کر برطانیہ میں مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے کسی قسم کی ایمنسٹی سکیم کی بجائے انہیں مجرم ثابت کر کے ملک بدر کر دینا کسی بھی طرح انسانی حقوق کی پاسداری نہیں ہے۔ پریتی پٹیل جن کے اپنے والدین اور آباؤ اجداد بھی امیگرنٹس تھے اگر قسمت سے ہوم سیکرٹری بن ہی گئی ہیں تو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نہ بنیں۔ ایسے غیر معمولی معاہدے اور سکیمیں بنانے سے گریز کریں جو انسانی حقوق کے منافی ہوں۔ وہ کام نہ کریں جو کسی انگریز ہوم منسٹر نے بھی نہ کئے ہوں۔ کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل بننے کی بجائے کنزرویٹیو فرینڈآف ہیومن رائٹس بنیں۔امیگرنٹس کے خلاف نئی سے نئی جارحانہ پالیسی متعارف کرتے وقت یہ دھیان رہے کہ آپ کا اپنا پس منظر بھی امیگرنٹس سے جڑا ہوا ہے۔ امیگرنٹس سے بغض میں اتنا آگے تک نہ جائیں کہ بنیادی انسانی حقوق کو ہی پامال کر کے رکھ دیں۔ ایسا نہ ہو کہ تارکین وطن اپنے ردعمل کے اظہار کے لئے برطانوی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنا شروع کر دیں۔ برطانوی دارالحکومت تارکین وطن اور ان کے خیر خواہوں سے بھرا پڑا ہے جن کو آپ سے بڑی شکایات ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان شکایات کے ازالے کے لئے برطانوی ارباب اختیار آپ کو وزارت کے منصب سے محروم کر دیں۔ جس طرح ایک بار پہلے بھی آپ کو اپنی حد سے تجاوز کرنے پر مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔(جس وقت یہ کالم شائع ہونی کے لئے روانہ کیا جا رہا تھا تو خبر ملی کہ لزِ ٹرس (LIZ TRUSS) برطانوی وزیر اعظم منتخب ہو گئی ہیں جس کے فوراً بعد پریتی پٹیل سے استعفیٰ لے لیا گیا یا وہ خود اپنے منصب سے مستعفی ہو گئیں)۔