154

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں

شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے
ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں

بھائیوں کے جمگھٹ میں، بے ردا ہوئیں بہنیں
اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں
اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

سُونی سُونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں
جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان کھیتوں میں دوپہر میں جلتے ہیں
لوٹتے ہیں سگ زادے کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس ذرا سی دوری ہے
ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے اُن کے دامنوں سے بھی
زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں سے

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی
رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا 
شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں

ایک بے گناہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے 
بٹ گیا ہے اک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہوکر اپنا وزن کھو بیٹھا
آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چنتا ہے
گھر گیا تھا بےچارہ کتنے رہنماؤں میں

احمد ندیم قاسمی