45

سفرنامے دلچسپ معلومات کا ذریعہ

میر ے دل میں دنیا دیکھنے اور خوشحال ملکوں کی سیاحت کا شوق اُس وقت شروع ہوا جب مجھے طالب علمی کے زمانے میں ابن انشا، مستنصر حسین تارڑ اور محمد اخترممونکا کے سفرنامے پڑھنے کا موقع ملا۔”پیرس 205 کلومیٹر“ کے مطالعے نے مجھے یورپ کی سیر کیلئے اکسایا۔ لندن آنے کے بعد میں نے سب سے پہلے پیرس کی طرف رخت ِسفر باندھا، پیرس ہو یا لندن، ایمسٹر ڈیم ہویا روم، کوپن ہیگن ہویا سٹاک ہوم یا پھربرسلز اور زیورچ یہ سب شہر بہت شاندار، خوشحال اور جدید ترین سہولتوں اور رونقوں سے آراستہ ہیں مگرویسے نہیں ہیں جیسا کہ ہمارے بہت سے سفر نامہ نگاروں نے ان کی تصویر کشی کی ہے البتہ سفر نامے پڑھ کر مجھ جیسے سفر کے شوقین لوگوں کو سیرو سیاحت کی ترغیب ضرور ملتی ہے۔ سفر اور سیاحت سے انسان کے مشاہدات، معلومات اور تجربات میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ بہت سی کتابیں پڑھنے سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لندن آنے سے پہلے میں نے اس کے بارے میں جوکچھ پڑھ اورسن رکھا تھا یہ شہر اس سے بڑھ کر دلپذیر اور شاندار ہے۔ بہت سے سفر نامہ نگاروں نے اس حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے کہ پڑھنے والوں کو مصنف کی قسمت پر رشک ہونے لگتا ہے۔ لندن جانے والے ایک ادیب کے بارے میں مشفق خواجہ نے لکھا تھا کہ ”جہاز میں اُن کے برابرکی سیٹ پرایک انگر یز خاتون بیٹھی تھی، یہ د ونوں ہم سفر تھوڑی سی دیر میں اتنے بے تکلیف ہو گئے کہ ذاتی حالات سے لے کر مذہب اور جنسیات تک ہر موضوع پر گفتگو ہونے لگی۔ یہ خاتون بیوہ تھیں، پاکستانی سفر نامہ نگار نے ان سے دوسری شادی کے بارے میں پوچھا تو محترمہ نے بتایا کہ مناسب آدمی ملے گا تو یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ لندن پہنچ کر بھی اس پاکستانی ادیب کی توجہ کا مرکز خواتین ہی تھیں جتنے دن یہ سفر نامہ نگارلندن میں رہے ان کی تحریر پڑھ کر ایسا لگا کہ اس دوران تمام مرد یا تو کسی خوف سے گھروں میں دبکے بیٹھے رہے یا ملک بدر کر دئے گئے اس لئے ان کے سفر نامے میں مردوں کا ذکر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں“۔ اب تک لندن کے بارے میں ہزاروں سفر نامے مختلف زبا نوں میں تحریر کئے گئے ہیں جن میں سرسید احمد خان کا”مسافران لندن“ بھی شامل ہے یہ سفرنامہ سرسید کی ہندوستان سے لندن تک پہنچنے کی تفصیلات اور برطانوی دارلحکومت میں انکی مصروفیات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔ اس سفر نامے کے اب تک درجنوں ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ لندن ہو یا مغربی ممالک کا کوئی اور شہر ان کے بارے میں سفرنامہ لکھنے والوں کو یہ سہولت میسر آجاتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں جو مبالغہ آرائی کریں، اپنے سرسری مشاہدات کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں اور خود کوفلمی ہیرو بنا کر پیش کریں تو کسی کو ان کی تصدیق یا تردید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔کئی برس پہلے ایک پاکستانی فلم مولاجٹ ان لندن بنائی گئی تھی اس فلم کو پاکستان میں بہت پسند کیا اور سر اہا گیا تھا جبکہ اس فلم کے جوسین لندن میں فلم بند کئے گئے تھے انہیں دیکھ کر برطانیہ کے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے اپنی ہنسی ضبط کر نا مشکل تھا۔ پاکستانی تارکین وطن کے لئے یہ ایک مزاحیہ فلم تھی۔ 

اسی طرح لندن اور یورپ کے سفرنامے پاکستانی قارئین کے لئے دلچسپ اور ایڈونچر سے بھر پور ہوتے ہیں لیکن سات سمندر پاربسنے والے ہم وطنوں کے لئے یہ تحریریں محض مبالغے اور خودنمائی پر مبنی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر وہ ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ شاعری کی طرح سفرنامے لکھنا بھی ایک ادبی فیشن بن گیا ہے جس طرح آج کل بہت سے لوگ ردیف قافیے اور وزن سے آزاد غزلیں لکھنے اور خود کو شاعر کہلوانے سے باز نہیں آتے اسی طرح بہت سے لوگوں کو اگر کبھی پاکستان سے باہر جانے کا موقع مل جائے تو وہ وطن واپس آکر سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ سفر نامہ لکھتے ہیں جس میں وہ اپنے ویزے کے حصول اور ہوائی اڈے سے جہاز پر سوار ہونے سے لے کر اپنی ہر اس مصروفیت کی تفصیلات لکھ مارتے ہیں جس میں پڑھنے والوں کو رتی برابر دلچسپی نہیں ہوتی۔ 2005 میں مجھے ماریشیئش میں منعقد ہونے والی ایک عالمی اُردو کا نفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ لندن سے رضا علی عابدی اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کو اس کا نفرنس کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان سے ڈاکٹر فتح محمد ملک، احمد فراز، کشور ناہید اور قیصر زیدی مہمانوں میں شامل تھے۔ انڈیا اور دنیا کے دیگر کئی ممالک سے بھی نامور اہل قلم اس ادبی اجتماع میں شریک تھے۔ اس پانچ روزہ ادبی کا نفرنس میں ایک ممتاز سفرنامہ نگاربھی مہمان خصوصی تھے، صحت کی خرابی کے باوجود یہ پاکستانی سفر نامہ نگار اس کانفرنس میں شامل ہوئے لیکن پانچ روز تک اپنے ہوٹل کے کمرے اور کانفرنس ہال کے علاوہ کہیں نہ جا سکے۔ مجھے اس بات کابہت افسوس ہوا کہ درجنوں سفر ناموں کا خالق ماریشیئش جیسے خوبصورت اور بے مثال ملک کی سیر و سیاحت سے محروم رہا، وہاں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کرنے اور عام لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع انہیں نہ مل سکا لیکن میں اُس وقت حیران وششدر رہ گیا جب چند ماہ بعد ماریشیئش کے بارے میں اُن کا سفر نامہ شائع ہو کر ڈاک کے ذریعے مجھ تک پہنچا۔ یہ سفر نامہ محض سنی سنائی باتوں اور ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے کتابچوں میں چھپی معلومات پر مبنی تھا، مجھے سیر و سیاحت کا بے حد شوق ہے اور سفر کرنا مجھے ہمیشہ سے اچھا لگتا ہے۔ میں جہاز کی بجائے ریل گاڑی اور سڑک کے ذریعے سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ مجھے ایک بارنیو یارک سے ٹورانٹو تک ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کا موقع ملا، اسی طرح میں دو مرتبہ کوپن  ہیگن سے سٹاک ہوم تک اور لندن سے سوئٹزر لینڈ تک بائی روڈ سفر کر چکا ہوں اس سفر سے میں جس قدر لطف اندوز ہوا اور مجھے جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا اُسے وقت ملنے پر ضرور قلمبند کروں گا۔ سفر اور سیرو سیاحت مہنگا شوق ضرور ہے لیکن اس کی وجہ سے انسان کی شخصیت اور مزاج پربہت ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سفر کے علاوہ مجھے سفرنامے پڑھنے میں بھی بہت دلچسپی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے نکلے تری تلاش اور خانہ بدوش،رضا علی عابدی کا شیر دریا اور جرنیلی سڑک، عطاء الحق قاسمی کا شوقِ آوارگی، بلقیس ریاض کا جہاں اور بھی ہیں اور رضیہ بٹ کا امریکی یاترا کے علاوہ اور بہت سے سفرنامے پسند ہیں۔ سفرنامے پڑھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قاری کو لکھنے والے کے زاویہئ نگاہ سے بھی کسی شہر اور ملک کے بارے میں جاننے کی سہولت میسر آجاتی ہے۔ سفر ناموں نے مجھے سفر کی ترغیب دی اور سفر واقعی میرے لئے وسیلہ ظفر ثابت ہوا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ سفر کرنے سے انسان کو اپنے ملک کی”قدر و قیمت“ کا اندازہ ہوتا ہے۔ کسی دوسرے ملک اور معاشرے کی سیاحت اورمشاہدات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام کی ترقی اور خوشحالی کا راز کیا ہے، وہاں کا طرز زندگی اور عام لوگوں کے رویے ہم سے کسی حد تک مختلف ہیں۔ 30 سے زیادہ ممالک کی سیر و سیاحت کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ ہمارا ملک پاکستان بلاشبہ دنیا کا ایک خوبصورت اور وسائل سے بھر پور ملک ہے،…… یہ ایک ایسا باغ ہے جس کے مالی اور رکھوالے اس کو سنوارنے اور حفاظت کرنے کی بجائے اجاڑنے کے درپے ہیں۔ وطن عزیز میں امن و امان کو مثالی بنا کر سیاحوں کو ایسی سہولتیں مہیا کی جائیں جو انہیں دنیا کے دیگر ملکوں میں میسر آتی ہیں تو پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری سے ہماری حکومت کوانتا زرمبادلہ مل سکتا ہے کہ اسے اور غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی اور دیکھنے کیلئے اتنا کچھ ہے کہ جو بھی ایک بار یہاں آئے گا وہ بار بار اس بے مثال خطے میں آنے کی خواہش کرے گا، بلوچستان سے خیبر پختو نخواہ تک یہ ملک پہاڑوں، دریاؤں، صحراؤں اور ساحلوں کی سرزمین ہے خالق کائنات ہماری اس سر زمین کو شاد باد کرے۔

٭٭٭