Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
507

مذاہب اور ان میں موجود دہشت گرد عناصر

دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن زیادہ تر دہشت گرد  کسی نہ کسی مذہب کے نام کو استعمال کر کے ہی اپنی مذموم کاروائیاں سرانجام دیتے ہیں۔ دہلی کے محمد زبیر اور پاکستانی ضلع قصور کے سلیم مسیح دونوں کو اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلتے وقت اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس دن انکا بیڑہ غرق ہونے والا ہے، کچھ مذہبی ٹھیکیدار اپنے مذہب مخالف لوگوں کے وجود سے اپنی اپنی زمین پاک کرنے والے ہیں، دہلی کا محمد زبیر گھر سے مسجد میں سالانہ اجتماع میں شامل ہونے اور سلیم مسیح اپنی روزی روٹی کے حصول کیلئے محنت مزدوری کرنے اپنے اپنے گھروں سے نکلے تھے، محمد زبیر نے مسجد سے فارغ ہوکر باہر لگے سٹالز سے اپنے بچوں کیلئے حلوہ پوری، نان خطائی اور دہی بڑے خریدے اور خوشی خوشی اپنے گھر کی جانب چل پڑا تاکہ باپ کا انتظار کرتے بچوں کو خوش کرسکے، اور راستے میں وحشی ہندوؤں کی شدت پسندی کا شکار ہوگیا، محمد زبیر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے، بچارے کے سر اور جسم پر لوہے کے راڈ، ڈنڈے اور تلواریں ماری جارہی ہیں، لوگ اسے ٹھڈے مار رہے ہیں اسکے سینے پر چڑھ کر جمپ لگا رہے ہیں، بعد میں خون میں لت پت محمد زبیر  کے بیہوش جسم کو ہسپتال لایا جاتا ہے، لیکن محمد زبیر خوش قسمتی سے بچ جاتا ہے، اور چار دن بعد اسکے گھر والے بھی اس سے مل جاتے ہیں، شاید محمد زبیر اب زندہ تو رہے گا لیکن ساری زندگی اسکے ذہن سے خوف اور تکلیف کی وحشت ختم نہیں ہوسکے گی، دوسری طرف بائیس سالہ سلیم مسیح کسی مسلمان کے کھیتوں میں سارا دن کام کرتا ہے، تھکن سے چور سلیم مسیح پاس لگے ٹیوب ویل کے پانی میں نہانا شروع کر دیتا ہے، تاکہ تازہ دم ہو کر اپنے گھر واپس جاسکے، اسی دوران کھیت والے مسلمان اپنے پانی کو ایک عیسائی وجود سے ناپاک ہوتے دیکھ لیتے ہیں اور اسکے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈنڈوں، ٹھڈوں اور مکوں سے سلیم مسیح کے جسم پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ ہسپتال پہنچنے تک سلیم مسیح جان کی بازی ہار چکا ہوتا ہے، گاؤں میں اکثر لوگ کھیتوں میں پیشاب پاخانہ سے فراغت کے بعد بھی اسی چلتے پانی سے اپنی پُشت دوھولیتے ہیں، کیا انکی پشت سے لگے پاخانے کے ٹکڑوں سے زیادہ ایک عیسائی انسان کا جسم ناپاک ہے؟ کیا عیسائی انسان نہیں ہے؟ ہم کس منہ سے ہندو دہشت گردوں پر لعن طعن کرسکتے ہیں، جبکہ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں اقلتیں محفوظ نہیں ہیں، ہم خود اپنی اقلیتوں کو انسان سمجھنے سے گریزاں ہیں ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے میں موجود ہندو اپنی اقلیتوں کو انسان کا رتبہ دے دیں?۔

مذاہب ہمیشہ محبت اور عدم تشدد کا درس دیتے ہیں، ہر مذہب میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو اپنے مذہب کے فالوئرز کے علاوہ باقی لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے اور دنیا کو انکے ناپاک وجود سے پاک کرنا چاہتے ہیں، نہ تو سارے ہندو متشدد سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور نہ ہی مسلمان، سکھ، عیسائی اور یہودی سارے کے سارے ایسی سوچ رکھتے ہیں، اسلیئے ہمیں کسی بھی جگہ ایسے ناخوشگوار واقعہ کے ہونے پر اس علاقے میں موجود ساری اکثریتی مذہبی کمیونٹی کو آنکھیں بند کر کے موردالزام ٹھہرانے کی بجائے اس مذکورہ مذہب میں موجود ان دہشت گرد عناصر کو لعن طعن کرنی چاہئیے جو کسی بھی مذہب میں موجود ہوتے ہیں اور اس مذکورہ مذہب کی منفی شبیہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہر مذہب میں موجود کچھ رہنماؤں کی روزی روٹی اختلافات کو ہوا دینے سے چلتی ہے، بقول اکبر الہ آبادی:

شیخ اپنی رگ کو کیا کریں ریشے کو کیا کریں 

مذہب کے جھگڑے چھوڑیں تو پیشے کو کیا کریں 

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں