400

رحمان ملک نے سنتھیا کو 50 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا

اسلام آباد میں رحمان ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی طرف سے میڈیا کو بھجوائے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ سینیٹر رحمان ملک نے اپنے قانونی نوٹس میں سنتھیا رچی کے لگائے گئے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیکر سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی تکریم کی لڑائی ہے، جو کہ نہ صرف میری بلکہ پوری قوم کی قائد ہے۔ بینظیر بھٹو اور میری کردار کشی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں، وقت آنے پر بے نقاب کروں گا۔ ان عناصر کو ان کا ماضی یاد دلاؤں گا کہ رہتی دنیا تک یاد رہے۔

رحمان ملک کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مجھے مسلسل جیل بھیجوانے و قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن نہ میں کبھی کسی کے دباؤ میں آیا اور نہ کبھی آوں گا۔ میرا ضمیر اور میرا دامن صاف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما یوسف رضا گیلانی بھی سنتھیا رچی کے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سنتھیا ڈی رچی کسی کے کہنے پر مہم چلا رہی ہیں۔ سنتھیا رچی کے معاملے پر پیپلز پارٹی رہنما اور سندھ کے وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ہمیں ملک کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے لیکن مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک خاتون کو سامنے لایا گیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں سعید غنی کا کہنا تھا کہ خاتون جو کہہ رہی ہیں، وقت ثابت کرے گا کہ کتنا سچ ہے۔ ان کے بقول اس وقت خاتون کی جھوٹی باتوں کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے کہ ہم کرونا وائرس اور ٹڈی دل کے حملے کو بھول گئے ہیں۔ سعید غنی نے سنتھیا ڈی رچی کا کردار مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی اسرائیل، تو کبھی بھارت جاتی رہی ہیں۔ اگر یہ خاتون سچی ہیں تو عدالت میں جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ایک عدالت نے امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 جون کو جواب طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ سنتھیا ڈی رچی کہہ چکی ہیں کہ وہ اب ہر طرح کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔

پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر شکیل عباسی نے امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کی تھی جس پر اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان نے سماعت کی۔ خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی اے سائبر ونگ اور ملک کے مختلف شہروں کے پولیس اسٹیشنز میں مقدمات کے اندراج کے لیے درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں لیکن کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ امریکی صحافی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف مہم چلائی ہے جس پر ہم نے بے نظیر بھٹو کے خلاف نازیبا ٹوئٹ کرنے پر اندراج مقدمہ کی درخواستیں دائر کی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں