برطانیہ اور پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت میں دو فرق بہت واضح ہیں۔ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوری تسلسل بہت مستحکم اور اٹل ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں اپنے قائد یعنی لیڈر کا انتخاب سو فی صد جمہوری طریقے سے کرتی ہیں۔ پارٹی جس کسی کو اپنا لیڈر چُن لیتی ہے ، باقی امیدوار ان کی سربراہی کو تسلیم کرکے اپنی سیاسی جماعت کی مقبولیت کے لئے ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت کا سربراہ اگر اپنی پارٹی کے اعتماد سے محروم ہوجائے یا اس کی جماعت عام انتخابات میں کامیابی سے محروم رہے تو وہ لیڈر خود ہی پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیتا ہے ۔ گزشتہ تیس برس کے دوران لیبر پارٹی کو ٹونی بلئیر، گورڈن براؤن، ایڈملی بینڈ اور جرمی کوربن جیسے سیاسی قائدین میسر آئے جبکہ کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی کی قیادت مارگریٹ تھیچر کے بعد جان میجر، ولیم ہیگ، مائیکل ہاورڈ، ڈیوڈ کیمرون، ٹریسا مے اور بورس جانسن نے کی۔
برطانوی جمہوریت میں قیادتیں آتی جاتی رہتی ہیں بلکہ پارٹی لیڈر اپنی بہترین اننگز کھیل کر میدان سے باہر چلا جاتا ہے اور اپنے بعد کے لوگوں کو صلاحیتیں آزمانے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس ملک میں لیڈر سے زیادہ سیاسی جماعتیں اہم ہیں۔ ملک کو پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایت کی مضبوطی کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے ۔ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اندر مضبوط جمہوری تسلسل کی وجہ سے نہ تو کوئی پارٹی لیڈر اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی اپنے خاندان کے کسی فرد کو منتقل کرسکتا ہے اور نہ ہی یہاں عام انتخابات کے موقع پر امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اختیار پارٹی لیڈر کے پاس ہوتا ہے ۔ کسی بھی پارلیمانی حلقے سے پارٹی کے ممبرز اپنے پارلیمانی امیدوار کو چنتے ہیں اور پھر اس کی انتخابی مہم کے لئے دامے ، درمے ، سخنے مدد کرتے ہیں۔ اس بنیادی فرق کو پیش نظر رکھ کر آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی جڑیں کیوں مضبوط نہ ہوسکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک ہمارے ملک کے ہر سیاست دان کو برطانیہ میں جمہوریت کی کامیابی کا یہ راز معلوم تھا اور ہے کہ برطانوی سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی جمہوریت کے باعث اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری ہے ۔
یہ حقیقت کیسی عجیب منافقت پر مبنی ہے کہ بے نظیر بھٹو بھی چاہتی تھیں کہ ان کی جماعت کی سربراہی ان کے خاندان کے پاس رہے اور اب نواز شریف کی خواہش بھی یہی ہے کہ پارٹی کی قیادت تو ان کے خاندان سے باہر نہ جائے مگر پاکستان میں عوامی جمہوریت کا سورج طلوع ہوجائے ۔ اگر پاکستان میں حقیقی اور عوامی جمہوریت کو رائج کرنا ہے اور اس کے مثبت نتائج سے اس طرح مستفید ہونا ہے جس طرح برطانیہ ہو رہا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی جمہوریت لانی ہوگی جس میں قیادت کا انتخاب پارٹی ممبرز کے اختیار میں ہو نہ کہ ایک وصیت کے کاغذ کے ذریعے پارٹی کی قیادت ایک نابالغ کو سونپ دی جائے یا فرضی کارروائی کے بعد پارٹی لیڈرشپ کا تاج اپنے بھائی یا بیٹی کے سر پر رکھ دیا جائے ۔ برطانیہ میں کوئی پارٹی لیڈر ایسا کرنے کی سوچے تو اس پارٹی کے ممبرز اس کی سیاسی تکا بوٹی کرکے اسے ہمیشہ کے لئے آمریت کے تابوت میں دفن کردیں۔
برطانوی سیاست دان اور تجزیہ نگار جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط اور اجارہ داری کو دیکھتے ہیں اور بڑے بڑے جید پاکستانی سیاست دانوں کو اس اجارہ داری کی حمایت کرتے ہوئے سنتے ہیں تو انہیں حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسے سیاست دان ہیں جو اپنی سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت لائے بغیر اپنے ملک میں جمہوریت لانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر خاندانی اجارہ داری کی حمایت کرنے والے ہمارے ذہین سیاست دانوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص بغیر وضو کی نماز کی نیت باندھ لے اور یہ سمجھنا شروع کردے کہ اس کی نماز قبول ہوجائے گی۔ کہنے کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو بہت جمہوریت پسند تھے یا نواز شریف اور عمران خان جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر اپنی سیاسی جماعتوں میں اپنے یا اپنے خاندان کے علاوہ کسی سیاسی قیادت کو پنپنے یا متبادل قیادت کے طور پر آگے آنے کا موقع فراہم نہیں کرتے ۔
برطانیہ اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا دوسرا فرق شیڈو کابینہ ہے ۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں جب کوئی سیاسی جماعت حزبِ اختلاف کا حصہ ہوتی ہے تو وہ حکومتی پالیسیز کا پوسٹ مارٹم اور تنقید کرنے کے لئے ایک شیڈو کابینہ تشکیل دیتی ہے ۔ اس شیڈو کابینہ میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اراکینِ پارلیمنٹ کو شیڈو منسٹر بنایا جاتا ہے ۔ یہ شیڈو منسٹر پارلیمنٹ کے اندر میڈیا کے مختلف فورمز پر متعلقہ وزارتوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ وہ ان محکموں میں بہتری کے لئے قابلِ عمل تجاویز بھی دیتے ہیں۔ ان شیڈو منسٹرز کو حکومتی وزیروں سے زیادہ چوکس ہوکر کام کرنا پڑتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومتی کارکردگی اور وزارتوں پر تنقید سے انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اگر آئندہ انہیں حکومت میں آنے کا موقع ملے گا تو وہ متعلقہ محکمے اور وزارت کو زیادہ اچھے طریقے سے چلا سکیں گے ۔ اپوزیشن لیڈر اپنی شیڈو کابینہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے کیوں کہ حکومت میں آنے کے بعد انہی شیڈو منسٹرز نے اپنے اپنے محکموں کا وزیر بننا ہوتا ہے ۔ اس طرح کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت میں آنے کے بعد مختلف وزارتوں اور محکموں کے لئے تربیت یافتہ اور حکومتی امور کا ادراک رکھنے والے سیاست دان میسر آجاتے ہیں۔
عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور پاکستانی تارکینِ وطن کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ جب بھی برطانیہ آتے تھے تو بہت سے ایسے اوورسیز پاکستانی جو برطانوی سیاست میں بہت فعال تھے ، وہ بار بار کپتان کو یہی مشورہ دیتے تھے کہ جب تک آپ حزبِ اختلاف میں ہیں، اپنی ایک شیڈو کابینہ تشکیل دیں تاکہ جب آپ کو حکومت میں آنے کا موقع ملے تو آپ کے پاس ایسے سیاست دانوں کی ایک ٹیم موجود ہو جو مختلف محکموں اور وزارتوں کے بارے میں معلومات اور پالیسیز کو بہتر بنانے کے لئے آگاہی اور ادراک رکھتی ہو تاکہ آپ کو حکومتی امور چلانے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر افسوس صد افسوس عمران خان نے یہ سنہرا موقع ضائع کردیا۔ کہنے کو تو وہ 22 برس حزبِ اختلاف میں رہے مگر اس عرصے میں وہ ایک ایسی شیڈو کابینہ تک تشکیل نہیں دے سکے جو حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے منشور اور ترجیحات کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان کو مجبوراً اپنی کابینہ کی کشتی میں ایسے بھاری پتھروں کو رکھنا پڑا ہے جن کے بوجھ نے پچھلی حکومتوں کو بھی سمندر کے بیچ میں جاکر ڈبو دیا تھا۔
برطانیہ میں سیاست دان اپوزیشن یعنی حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے کوئی ایسا وعدہ یا دعویٰ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کو وہ حکومت میں آکر پورا نہ کرسکیں۔ گریٹ بریٹن میں سیاسی جماعتوں کی قیادتیں نہ تو لمبے چوڑے دعوے کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت کسی خرابی کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی اربابِ اختیار اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے عوام کو مطمئن کرنے کے جتن کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کسی غیر آئینی سمجھوتے پر آمادہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی کارکردگی کو بنیاد بناکر اپنے لئے پھر سے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت اگر کسی معاملے میں عوامی اعتماد اور حمایت سے محروم ہوجائے تو وہ خود کو پھر سے عوام کی عدالت میں پیش کر دیتی ہے جس طرح بریگزٹ کے مسئلے پر ٹوری حکومت مطلوبہ اراکینِ پارلیمنٹ کی حمایت سے محروم ہوگئی تو اس نے مڈٹرم الیکشن کے ذریعے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا اور پھر انتخابات کے بعد اسے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی اور یوں بریگزٹ کا دیرینہ حل طلب مسئلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا ہے کہ برطانیہ کو سیاست دان نہیں بلکہ یہاں کا ایک وضع کردہ سسٹم اور ادارے چلا رہے ہیں جن کی وجہ سے برطانیہ کے ہر شہری کو علاج معالجے یعنی صحت اور تعلیم کی مفت سہولت دستیاب ہے ۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء مناسب داموں اور کسی قسم کی ملاوٹ کے بغیر ملتی ہیں۔ کام پر آنے جان کے لئے بہترین پبلک ٹرانسپورٹ میسر ہے جس کے ذریعے اراکینِ پارلیمنٹ اور وزیر خود بھی سفر کرتے ہیں۔ عام لوگوں کو کسی قسم کے رنگ و نسل اور مذہبی امتیاز کے بغیر انصاف بلکہ فوری انصاف ملتا ہے ۔ بے سہارا اور بے روزگار لوگوں کو روٹی، کپڑے اور مکان کی ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوا ہے کہ برطانیہ میں حقیقی جمہوریت رائج ہے ۔ جب تک پاکستان میں اسی طرح کی حقیقی جمہوریت کی جڑیں مستحکم نہیں ہوں گی، ہمارے ملک میں عوامی خوشحالی اور ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے سارے نام نہاد سیاست دان پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہونے نہیں دیں گے کیوں کہ جس دن سے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے سفر کا آغاز ہوگا، اسی دن سے ہمارے نام نہاد سیاست دانوں کی بقا کو خطرات لاحق ہونا شروع ہوجائیں گے۔