پی ڈی ایم کے علاوہ پورے پاکستان کی خواہش ہے کہ ایک ساتھ پورے ملک میں عام انتخابات ہو جانے چاہیں موجودہ اسمبلیاں اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں ایک دو ماہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پی ڈی ایم کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح کوئی جگاڑ لگا کر حالات کا بہانہ بنا کر ایک سال کی توسیع کر لیں اتنی دیر میں عمران خان بھی تھک ہار کر بیٹھ جائے گا اور وہ عوام میں جانے کے لیے کوئی نہ کوئی بیانیہ بنا لیں گے لیکن عمران خان نے اتنا پریشر بڑھا دیا ہے عوام اس کھچ کھچ سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ اس سیاسی محاذ آرائی میں نہ تو کاروبار چل رہے ہیں نہ مہنگائی رک رہی ہے بلکہ غیر یقینی کی فضا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے اس لیے عوام اس سے نجات کا حل عام انتخابات سمجھتے ہیں حکومت کی جو سوچ تھی کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ جس میں یہ باور کروایا جا سکے کہ حکومت کو ایک سال کی توسیع ملنا ضروری ہے حکومت اس میں تو مکمل ناکام ہو چکی ہے لوگ انھیں موجودہ مدت پوری نہیں کرنے دے رہے چہ جائے کہ حکومت ایک سال کی توسیع کا خواب دیکھ رہی تھی تحریک انصاف نے اب حکومت کو کھلا آپشن دے دیا ہے اب تحریک انصاف عام انتخابات کی بات زور دے کر نہیں کرتی اور اسے وفاقی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اب تو تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جانے کے لیے بھی تیار ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں انتخابات ان کا آئینی حق ہے کیونکہ ان انتخابات کے لیے انھوں نے اپنی دو حکومتیں ختم کی ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان نے دو اسمبلیاں تحلیل کر کے غلطی کی ہے انھیں اب نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ عمران نے مشکل راستے کا انتخاب ضرور کیا تھا لیکن اسی چال نے حکومت کو پھنسا دیا ہے اسمبلیاں توڑنے کے بعد حکومت کے پاس صوبوں میں الیکشن نہ کروانے کا کوئی عذر قابل قبول نہیں صوبوں میں الیکشن سے راہ فرار کے جو ڈھکوسلے اختیار کیے گئے اس سے پی ڈی ایم بے نقاب ہو گئی واضح ہو گیا کہ حکومت کسی طور پر الیکشن میں نہیں جانا چاہتی اس کے لیے آئین کی بھی پروا نہیں کی گئی جس سے ایسا ماحول بن گیا تھا کہ پاکستان کے دانشور اور سنجیدہ حلقے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے تھے اب تو مطالبات بھی آرہے تھے کہ خدارا کوئی کردار ادا کرکے دست وگریبان سیاستدانوں کو چھڑوا دیا جائے اسٹیبلشمنٹ نے تو قسم کھائی ہوئی ہے البتہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر 9رکنی لارجر بینچ بنا دیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے خواہش سب کی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں ایک ساتھ انتخابات کروانے کے لیے یا تو دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال کر دیا جائے اور ساری اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہوں یا پھر قومی اسمبلی سندھ اور بلوچستان اسمبلی چند مہینوں کی قربانی دے کر تحلیل ہو جائیں تو ایک ساتھ انتخابات ہو سکتے ہیں ورنہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے سیاسی محاذ آرائی ختم نہیں ہو گی البتہ پی ڈی ایم چند ماہ تک اقتدار کو مزید انجوائے کر سکے گی لیکن ہر آنے والے دن میں پی ڈی ایم کی سیاست زمین بوس ہوتی جائے گی عافیت اسی میں ہے کہ فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور اگر دو صوبوں میں انتخابات ہو گئے تو تحریک انصاف کو بڑی کامیابی ملنے کا امکان ہے جس کے بعد قومی اسمبلی کے الیکشن ایک رسمی کارروائی ہوں گے دو صوبوں میں کامیابی کی صورت میں پورے ملک میں تحریک انصاف کو ایک نفسیاتی برتری حاصل ہو جائے گی اب پی ڈی ایم کو پتہ ہے کہ عدلیہ آئین سے ماورا تو کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی البتہ تمام فریقین کی رضامندی کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے اس وقت حکومتی حلقوں میں سوچ وچار ہو رہی ہے کہ کیا ہمیں دو صوبوں میں الیکشن لڑنا چاہیے یا عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں وہ کوئی اچھی نہیں پی ڈی ایم ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ لڑائی کو بڑھایا جائے عدلیہ کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے موجودہ بینچ کو بھی تڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہے حکومت کی کوشش ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں جن میں الیکشن ہونا ممکن ہی نہ ہو سکیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنے عزائم میں کامیاب ہوتی ہے تحریک انصاف الیکشن لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا کوئی اور راستہ نکلتا ہے آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔
177