برطانیہ سمیت یورپ اور دنیا کے دیگر خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں اہلیت اور قابلیت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ پرائمری سکول سے ہی بچوں کی قابلیت اور رجحان کا جائزہ لیا جانے لگتا ہے۔ سیکنڈری سکول میں طالبعلموں کی استعداد اور اہلیت کے مطابق انہیں مضامین کے انتخاب کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کالج تک پہنچنے والے طلباء وطالبات اپنی مرضی، قابلیت اور رجحان کے حساب سے مضامین منتخب کرتے ہیں۔ اسی دوران بہت سے سٹوڈنٹس مختلف طرح کے ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کئی شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔جو طلباء پڑھنے لکھنے میں تیز اور ذہین ہوتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے جہاں وہ اپنی قابلیت اور پسند کے مطابق مضامین پڑھتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں والدین اپنے بچوں کو زبردستی میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے یا ڈاکٹر اور انجینئر بننے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی نصاب میں رٹہ سسٹم کی گنجائش بہت کم ہے۔ اس لئے بچے صرف قابلیت کی بنیاد پر اپنے تعلیمی مدارج طے کرتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں وہی کچھ بنتے ہیں جو وہ بننا چاہتے ہیں۔ طالبعلموں کی اکثریت اپنے سکول کی تعلیم کے دوران ہی ٹیچر، نرس، سیاستدان، قانون دان، ڈاکٹر، چارٹرڈاکاؤنٹنٹ، صحافی، انجینئر، بزنس مین یا کچھ اور بننے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم برطانیہ کے مختلف شعبہ ہائے زندگی اور پیشوں یعنی پروفیشنز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اس ملک میں جج کے منصب پر ایسے قابل لوگ فائز ہیں جو انصاف کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، سیاست کی باگ ڈور اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو عوامی خدمت اور قانون سازی کی اہلیت رکھتے ہیں، استاد ہونے کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے کندھوں پر ہے جو طلباء کی تعلیم و تربیت کو اپنا مشن سمجھتے ہیں، ڈاکٹرز کی ڈگری اُن افراد کے پاس ہے جو بیماریوں کی صحیح تشخیص اور اُن کے علاج معالجے کی اہلیت رکھتے ہیں، قانون دان (وکیل) اور لائرز کا پیشہ اُن لوگوں نے اپنایا ہوا ہے جو مقدمات کی پیروی کے لئے پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہیں، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایسے کوالیفائیڈ لوگ ہیں جو ٹیکس چوری کے حربے بتانے کی بجائے کاروباری حضرات کو ٹیکس دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں ایسے افراد متعین ہیں جو عوامی مسائل کے حل کی اہلیت رکھتے ہیں، گریٹ بریٹن کی ترقی اور خوشحالی کی اور بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سرکاری اور غیر سرکاری محکمے اور شعبے میں قابل اور اہل لوگوں کو متعین کیا جاتا ہے اور میرٹ کو اولیت دی جاتی ہے۔ یہاں نہ تو کسی کو سفارش کی بنیاد پر کوئی ملازمت ملتی ہے اور نہ ہی کسی جھوٹی اے سی آر پر کسی کو ترقی دی جاتی ہے۔ ملازمت کے حصول اور ترقی کا واحد ذریعہ صرف قابلیت اور کارکردگی ہے۔ برطانیہ میں ہزاروں پاکستانی اور ایشیائی تارکین وطن ایسے ہیں جو مختلف شعبوں سے بڑے بڑے عہدوں اور منصب پر فائز ہیں۔یہ لوگ اپنی کمیونٹی کے لئے رول ماڈل اور فخر کا باعث ہیں۔ اِن لوگوں کو میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں ملیں اور قابلیت کی وجہ سے اعلیٰ عہدے نصیب ہوئے۔ صادق خان کا دوسری بار لندن کا میئر منتخب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں اہلیت اور کارکردگی ہی اصل معیار ہے۔ لندن میں مسلمان آبادی کا تناسب صرف 15فیصد ہے مگر اس کے باوجود غیر مسلموں کی اکثریت نے صادق خان کو ووٹ دے کر دوسری بار میئر کے عہدے پر فائز کیا جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ برطانوی دارالحکومت کی غیر مسلم اکثریت مسلمانوں کے لئے اپنے دِل میں کوئی بغض یا نفرت نہیں رکھتی۔ لندن کے لوگ اگر اسلاموفوبیا میں مبتلا ہوتے تو صادق خان کبھی لندن کے دوبارہ میئر منتخب نہ ہو سکتے۔ صادق خان جو کہ ایک پاکستان نژاد بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں۔ اگر پاکستان میں ہوتے تو اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر میئر تو کیا کونسلر بھی منتخب نہ ہو سکتے۔ اسی طرح حمزہ یوسف کا سکاٹش نیشنل پارٹی کا سربراہ منتخب ہونا یا ساجد جاوید کا برطانوی وزیر بننا بھی اس صداقت کا ثبوت ہے کہ برطانیہ میں قابلیت اور اہلیت ہی اصل میرٹ ہے۔ دراصل انگریزوں کو بہت پہلے اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ ملک اور معاشرے کی ترقی کے لئے ہر شعبۂ زندگی میں صرف قابل اور اہل لوگوں کو متعین کیا جائے جن کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ انگریز لوگ قابلیت اور اہلیت کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔ وہ نااہل گورے پر کسی قابل غیر سفید فام کو ترجیح دینے میں کبھی کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتے۔ اگر ہم اس رجحان کا پاکستان یا کسی اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک سے موازنہ کریں تو بہت سے حقائق واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائیں گے۔ خاص طور پر ہمیں پاکستان کے زوال کی وجہ سمجھ میں آ جائے گی۔ کیا وطن عزیز میں نااہل لوگوں کا ہر شعبہ زندگی پر راج نہیں ہے؟ سیاست، عدلیہ، نظامِ تعلیم، سرکاری اداروں اور محکموں پر جب ایسے لوگ مسلّط ہو جائیں جو سفارش اورا قرباپروری کی پیداوار ہوں تو پھر ایسے معاشرے کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
کسی محکمے یا ادارے اور کسی قوم اور ملک کو زوال اور تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہاں نااہل لوگوں کو اختیار اور اقتدار سونپ دیا جائے۔ پی آئی اے ہو یا پاکستان ریلویز، پاکستان سٹیل ملز ہو یا واپڈا، ہر ادارے کو نااہل سفارشی لوگوں نے اس حال تک پہنچایا ہے۔ وہ محکمے جو کبھی پاکستان کی معیشت اور معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ نااہل لوگوں کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی حالت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ پاکستان کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں اگر کوئی قابل اور اہل شخص پایا جائے تو تمام نااہل لوگ مل کر اس کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں اور اُسے وہاں سے نکال کر دم لیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اہل اور قابل لوگوں کے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے اور وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ قدرت نے ہمیں ایک آزاد وطن کی نعمت عطا کی جو ہماری پہچان کا سب سے مستحکم حوالہ ہے۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہم اور ہماری آئندہ نسلوں کو ایسے کرپٹ اور نااہل سیاستدان، جج، جاگیردار، مذہبی رہنما اور لیڈرز ملے جنہیں کبھی اس بات کا خیال تک نہیں آتا کہ اگر ہمارا ملک مستحکم اور خوشحال ہو گا تو ہمارے یہ ٹھاٹھ باٹھ قائم رہیں گے۔ ہم سب کی بقا پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور استحکام سے مشروط ہے۔ اتنی سمجھ تو ایک لکڑ ہارے کو بھی ہوتی ہے کہ جو درخت اُسے سایہ اور پھل فراہم کرتا ہو وہ اُسے نہیں کاٹتا، ہمیں کیسے ظالم اور بے حس حکمران، سیاستدان، نام نہاد رہنما اور محافظ میسر آئے ہیں جو گذشتہ 77برس سے اپنے ہی دیس کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے وسائل پر قابض ہیں۔ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار دِن بہ دن مستحکم، مضبوط اور توانا ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ملک اور اس کے عوام کی حالت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابتر اور قابل رحم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں۔ میں نے پہلے بھی یہ نشاندہی کی تھی کہ صرف ریکوڈک بلوچستان میں سونے اور تانبے کے قدرتی ذخائر کی مالیت 3ٹریلین امریکی ڈالرز سے زیادہ ہے اور جو غیر ملکی کمپنیاں اِن معدنیات کو نکالیں گی وہ اگر 50فیصد حصہ بھی پاکستان کو دیں تو پاکستان کے تمام اگلے پچھلے قرض ادا ہو سکتے ہیں اور ملک کی اقتصادی حالت مثالی ہو سکتی ہے۔ ریکوڈک کے علاؤہ بھی پاکستان کے بہت سے حصے قیمتی معدنیات کا خزانہ ہیں لیکن اِن قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی خطیر رقم اور زرمبادلہ نہ تو پہلے پاکستان کے عوام کے کام آیا تھا اور نہ آئندہ اس بات کا امکان ہے کہ اِن وسائل سے پاکستان کی ترقی اور عوامی خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا۔ تمام تر وسائل کے باوجود پاکستان اس لئے کمزور اور غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے کہ نااہل اور کرپٹ لوگ اِن وسائل پر قابض ہیں جو وطنِ عزیز کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اپنی معاشی حالت کو مضبوط سے مضبوط ترین کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یعنی دِن بہ دِن ملک کمزور اور اس کو چلانے والے طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور کب تک یہ چالاک لوگ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے، کب تک عوام کو انتخابات اور جمہوریت کا سبز باغ دکھاتے رہیں گے۔ ایسے انتخابات جس کے نتیجے میں آصف زرداری ملک کے صدر اور شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں اور مریم نواز کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرا علیٰ بنادیا جائے اس پر تبصرہ کرنا بھی جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ قدرت بھی اُن مکانوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی جن کے وسائل کو ہتھیانے کے لئے اُن کے مکین اور محافظ خود ہی اس کی بنیادوں اور دیواروں میں نقب لگانے لگ جائیں۔ خالق کائنات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاکستان عوام پر اپنا کرم فرمائے۔
٭٭٭