بنیادی طور پر قانون کا ایک خوف ہوتا ہے جو شہریوں کو قانون کے تابع رکھنے کے کام آتا ہے تاکہ لوگ بندے دے پتر بن کے سیدھے راستے پر چلیں جن معاشروں میں قانون مذاق بن جائے وہاں سب طاقت کے تابع ہو جاتے ہیں کچھ عرصہ سے جو کچھ قانون کے ساتھ ہو رہا ہے اس نے ملک وقوم کا وقار خاک میں ملا دیا ہے جب ریاست بات بات پر دہشتگردی کے مقدمے درج کرے گی جب بولنے پر ملک کے خلاف سازش کے مقدمے بنائے جائیں گے اور مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ماورائے آئین اور قانون حربے استعمال کیے جائیں گے تو پھر سنگین دفعات کی حساسیت اور سنگینی ختم ہو جائے گی حکومت نے تحریک انصاف کو دبانے کے لیے قانون کا جتنا بے دریغ استعمال کیا ہے قانون کی حرمت تار تار کر کے رکھ دی ہے اب اس ملک کا عام شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ حقیقت میں اس ملک میں کوئی قانون نہیں جس کے پاس اختیارات ہیں قانون اس کے تابع ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قانون کوجائز ناجائز استعمال کرے اس کوکوئی پوچھنے والا نہیں عمران خان چھینک بھی مارے تو مقدمہ درج ہو جاتا ہے اب تک 76 مقدمات درج ہو چکے ہیں ان کے ساتھیوں کو ڈرانے کے لیے ان پر بھی درجنوں مقدمات درج کر دیے گئے پہلے پہل تو لوگ کنفویژ تھے کہ شاید عمران خان خلاف قانون حکومت کو تنگ کر رہا ہے اس لیے اس کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں لیکن پے درپے مقدمے درج کرکے اب حکومت اپنا مذاق اڑوا رہی ہے 8مارچ کو زمان پارک میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر ہونے والے ظلم وستم نے تو مکمل طور پر حکومت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے ساری دنیا نے دیکھا کہ پولیس نے ریلی کےلیے اکھٹے ہونے والے ورکرز پر وحشیانہ تشدد کیا بے گناہ شہریوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے اور نہ جانے کس کے کہنے پر ایک معصوم ورکر کو تشدد کرکے مار دیا لاہور کے شہری ان واقعات کے عینی شاہد ہیں اور کیمرے کی فلموں کے انمٹ شواہد پوری دنیا نے دیکھے ہیں ان واقعات کے دوران عمران خان اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے فواد چوہدری اسلام آباد میں موجود تھا لیکن ان سب پر اپنے ہی ورکر کے قتل، اقدام قتل اور جو دفعات درج کی جا سکتی تھیں سب کو لگا کر مقدمہ درج کر لیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس خود ہی تشدد کرنے والی ہے خود ملزم ہے لیکن وہ خود ہی مدعی بن گئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس نے خود ہی اس کیس کی تفتیش کرکے عدالت کوبتانا ہے اس میں کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ ہے چونکہ پولیس نے تحریک انصاف کے قائدین اور ورکروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے تو یہ اختیار بھی پولیس کے پاس ہے کہ وہ انھیں چالان کرے پنجاب پولیس جہاں بہت سارے معاملات میں پہلے ہی بدنام ہے اب اس ننگے چٹے جھوٹ کی وجہ سے بالکل بے نقاب ہو گئی ہے کہ یہ پولیس کی مرضی ہے وہ گھوڑے کو ہاتھی ڈیکلیر کر دے یا ہاتھی کو بکری باامر مجبوری قانون کی اختراع میں قبول کرنا ہو گا پولیس نے کچھ عرصہ سے لوگوں سے مدعی بننے کا حق بھی چھین لیا ہے اب پولیس کی مرضی ہے وہ جس مرضی کیس کی چاہے مدعی بن جائے حالانکہ قانون کے مطابق جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ خود یا اس کے والی وارث اس کے مدعی بن سکتے ہیں پولیس صرف اس واقعہ کی مدعی بن سکتی ہے جس میں کوئی مقدمہ درج کروانے کے لیے تیار نہ ہو یا جس کا کوئی وارث نہ مل رہا ہو اس کی وارث ریاست ہوتی ہے یہاں تو عجب کام ہوا ہے پولیس بیک وقت ظالم بھی ہے مظلوم بھی ہے اور تحقیقات کار بھی ہے شہباز انور کا شعر ہے۔
توقع کس سے پھر انصاف کی رکھے کوئی انور۔
جہاں قاتل ہی منصف ہو حکومت بھی اس کی ہو۔
ایسی صورتحال میں یہ دلیل بھی کیس ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی۔
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر۔
حکمران جس بے دردی کے ساتھ اپنے عزائم کے لیے پولیس کو استعمال کر رہے ہیں معاشرے کو لاقانونیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے یہی اگر فرضی قصے کہانیوں پر مقدمات درج کرکے تنگ کرنے کی بجائے جو انھوں نے جرم کیا تھا اس پر بننے والی معمولی سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے انھیں سزا دلوائی جاتی تو اس کا اثر کچھ اور ہوتا لیکن اب نہ صرف قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے بلکہ ریاست کے ایکٹ پر بھی کئی سنگین سوالیہ نشان ابھر رہے ہیں اوپر سے ایک بار پھر پولیس مقابلوں کا رواج دوبارہ آگیا ہے پہلے تو یہ وباء صرف پنجاب تک تھی اب تو اسلام آباد جیسے کیپٹل میں بھی پولیس مقابلوں میں گرفتار بندے مارنے کا فیشن جگہ بنا چکا ہے یہی اگر ملزمان کو جرم ثابت کرکے انھیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں تو قانون کی حکمرانی کی رٹ مضبوط ہوگی لوگوں پر قانون کا خوف ہو گا اب پولیس کی تحویل میں مرنے والے ورکر کا مقدمہ اگر عمران خان پر درج ہو گا تو یہ قانون کا مذاق نہیں تو اور کیا ہو گا ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں صبح شام مقدمات درج کرکے کھینچا تانی کی جا رہی ہے ادھر طلبیوں کے نوٹسز اور گرفتاری کے وارنٹس کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ادھر ریلیف بھی مل جاتا ہے یہ سارا کچھ کیا ہو رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کو مصروف رکھنے کے لیے یہ سارا کچھ سٹیج کیا گیا ہو اور اندر کھاتے کچھ اور چل رہا ہو تاکہ لوگوں کی نظریں اس پر لگی رہیں اور اصل معاملہ کو پوشیدہ رکھ کر کچھ اور گل کھلائے جا رہے ہوں۔