Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
227

پنجاب کی نگرانی

نگران حکومتوں کا ڈول کچھ عرصہ سے ڈالا گیا ہے مقصد اس کا یہ تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسا ماحول میسر آئے نگران حکومتوں کا کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاو نہ ہو وہ صیح معنوں میں غیر جانبدار ہوں اور صاف شفاف غیر جانبدار الیکشن کو یقینی بنائیں تاکہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے نگرانوں کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے نگرانوں کے چناو کا بھی طریقہ کار وضع کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے ہی نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جانا ضروری قرار دیا گیا لیکن چونکہ ہماری نیتیں اکثر خراب رہتی ہیں اس لیے ہم نے نگرانوں کو بھی متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی دراصل ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم انسان نہیں ہم پر انسانوں کے قوانین اور اخلاقیات لاگو نہیں ہوتیں ہم کسی اور سلوک کے مستحق ہیں جو ہمارے ساتھ روا نہیں رکھا جا رہا لہذا ہمیں بدہضمی ہو رہی ہے ہم اپنی من مانیوں کے 20 سال گزار چکے ہیں کہیں ہمیں اپھارا نہ ہو جائے اس لیے وقفہ بہت ضروری ہے تاکہ پچھلا کھایا ہوا ہضم کر لیں لیکن اس بار لگتا ہے کہ یہ نظام اسی طرح چلانا پڑے گا بات نگرانوں کی ہو رہی تھی کسی اور طرف نکل گئی پہلے حکومت ہی اپنی سربراہی میں الیکشن کرواتی تھی اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کا الزام ایک فطری عمل ہوتا تھا لیکن نگرانوں کی کارکردگی بھی کوئی تسلی بخش نہیں رہی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی صیح الیکشن ہوئے تھے جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا تھا اس کے بعد ہم نے صاف شفاف غیرجانبدار الیکشن کروانے کا کبھی رسک نہیں لیا انتہائی بدقسمتی ہے کہ انتخابات سے قبل ہی پری پول رگنگ کا ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ لوگوں کو باآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ چاہنے والے کیا چاہتے ہیں اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو چاہنے والے چاہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ماحول بدلا بدلا سا لگ رہا ہے اس بار کام الٹ پڑ رہا ہے لوگ روائیتی ہتھکنڈوں سے نفرت کر رہے ہیں اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں کام خراب نہ ہو جائے کیونکہ محاذ آرائی اور تنازعات اس حد تک شدت اختیار کر چکے ہیں کہ اب برداشت کا مادہ ناپید لگ رہا ہے اگر الیکشن کو قابل قبول بنانا مقصود ہے اور الیکشن کے نتائج کو تسلیم کروا کر مضبوط مستحکم حکومت کے قیام کو یقینی بنانا ہے جو پاکستان کو مسائل سے نکالنے کی اہلیت بھی رکھتی ہو جسے عوام کا بھر پور اعتماد بھی حاصل ہو تو پھر ہمیں اپنے عمل سے ظاہر کرنا ہو گا کہ انتظامیہ اور چاہنے والے مکمل طور پر غیر جانبدار ہیں اور وہ اس بات کو بھی یقینی بنوائیں کہ کسی کو بھی من مرضی نہ کرنے دی جائے خیبر پختون خواہ میں نگران وزیر اعلی کی باہمی رضامندی سے نامزدگی سےخوشی ہوئی کہ سیاستدانوں میں بھی باہمی رضا مندی سے فیصلہ کرنے کا بھی ظرف ہے اعظم خان کا نام اپوزیشن کی طرف سے آیا تھا لیکن حکومت نے بھی بخوشی تسلیم کر لیا تھا اب وہاں نگران کابینہ بھی اتفاق رائے سے لائی جا رہی ہے لیکن پنجاب میں روز اول سے جان بوجھ کر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی کیا پنجاب کے 12 کروڑ عوام میں سے کوئی ایک ایسی غیرجانبدار شخصیت نہیں تھی جس پر اتفاق ہو سکتا لیکن یہاں یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ ہماری مانی جاتی ہے اور ہم جو چاہیں گے وہ ہو گا اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن رضا نقوی کسی سیاسی جماعت کا کبھی بھی باقاعدہ طور پر حصہ نہیں رہے لیکن ان کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں اور ان کی مرضی ومنشا کے مطابق نگران وزیر اعلی بنائے گئے ہیں ان کی مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ہم آہنگی ہے وہ چوہدری صاحبان کے بھی قریبی عزیز ہیں لیکن وہ نہ تو چوہدری صاحبان کو قابل قبول ہیں اور نہ تحریک انصاف کو اب ان کے نگران وزیر اعلی بننے پر تحریک انصاف عدالت میں بھی جا رہی ہے اور احتجاج بھی کر رہی ہے الیکشن کمیشن نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرکے انھیں وزیر اعلی بنا دیا ہے اب تو ان کی زیر نگرانی ہی الیکشن یوں گے لیکن یہ الیکشن اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازعہ یوتے جا رہے ہیں ابھی اطلاعات یہ بھی آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے سکرو ٹائٹ کرنے کے لیے پنجاب میں اہم انتظامی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں پنجاب کی اپنی نفسیات ہے یہاں دیکھا جاتا ہے تھانیندار کس کے ساتھ ہے کون پکڑوانے اور چھڑوانے کی طاقت رکھتا ہے تحریک انصاف صرف اسی وجہ سے شور مچا رہی ہے کہ کہیں یہ تاثر غالب نہ آجائے اور ان کی الیکشن مہم کو متاثر نہ کرے اس لیے وہ نگران وزیر اعلی پر سوال اٹھا رہے ہیں پہلی دفعہ نگرانوں کا معاملہ عدالت میں گیا ہے ابھی اس حوالے سے بھی دیکھنا ہو گا کہ عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے نگران وزیر اعلی بننے کے بعد محسن رضا نقوی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ وہ غیرجانبدار ہیں اگر انھوں نے کسی کی جانبداری کی کوشش کی تو نہ صرف ان کی شخصیت مزید متنازعہ ہو جائے گی بلکہ الیکشن بھی مشکوک ہو جائیں گے