لندن دنیا بھر کے مہنگے اور مصروف ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی دارالحکومت کی روز مرہ زندگی اور معمولات کا انحصار پبلک ٹرانسپورٹ پر ہے۔ یہاں ہر روز لاکھوں لوگ ٹرین، بسوں اور ٹرام کے ذریعے کام پر آتے جاتے ہیں۔ اس شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت 24گھنٹے یعنی دِن رات دستیاب ہے۔ رات کو بارہ ایک بجے کے بعد جب ٹرین سروس معطل ہو جاتی ہے تو نائٹ بسز (NIGHT BUSES)چلنا شروع ہو جاتی ہیں جو رات کے مسافروں کو لندن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ اکثریتی آبادی یعنی عام لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرنے اور کام پر آنے جانے کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی میسر آ سکے۔ لندن ایک مصروف ترین انٹرنیشنل اقتصادی مرکز ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ مضافاتی علاقوں اور دوسرے شہروں سے ملازمت اور میٹنگز کے لئے یہاں آتے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ لندن اور خاص طور پر سنٹرل لندن میں پارکنگ، کنجشن چارجز اور سپیڈ لمٹ کے مسائل کے باعث اپنی کار یا اپنی سواری استعمال کرنا بہت دشواری اور دقت کا کام ہے۔ اس کے علاؤہ ہر جگہ بس لین اور سائیکل لین کی وجہ سے پورے شہر میں ٹریفک رینگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وسطی لندن کو آلودگی اور خاص طور پر ٹریفک کے دھوئیں سے بچانے کے لئے نئے نئے ضابطے بنائے جا رہے ہیں تاکہ لوگ الیکٹرک کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ لندن میں ڈبل ڈیکر سرخ بسوں کی اکثریت اب بجلی سے چلتی ہے اور ویسے بھی پورے یورپ میں 2030ء کے بعد کوئی بھی کمپنی ڈیزل یا پٹرول سے چلنے والی کار یا وین نہیں بنا سکے گی۔ یعنی چند برس بعد یورپ میں ہر نئی کار، بس اور کوچ بجلی سے چلنے والی ہو گی۔ لندن میں گذشتہ چند برسوں کے دوران نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ میں جدید سہولتوں کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ اس کے نیٹ ورک کو بھی توسیع دی گئی۔ نئے سٹیشنز اور پلیٹ فارمز بنانے کے علاؤہ نئی ریل گاڑیاں اور نئی لائنز بھی بنائی گئی ہیں۔ نئی اوور گراؤنڈ ٹرینز اور ایلزبتھ لائن کی وجہ سے گریٹر لندن اور اس کے مضافاتی ٹاؤنز تک سفر کرنا مزید آسان ہو گیا ہے۔ گریٹر لندن کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے جبکہ ہر سال 2کروڑ سے زیادہ سیاح اس بے مثال شہر کی سیروسیاحت کے لئے آتے ہیں۔ اسی لئے حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ لندن میں پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑانیٹ ورک لندن انڈر گراؤنڈ (ٹیوب) کا ہے جس سے روزانہ ساڑھے تین لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ زیر زمین چلنے والی یہ ٹرینز سویرے پانچ /ساڑھے پانچ بجے سے آدھی رات کے بعد تک مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ رش آورز میں (صبح پانچ سے 9بجے تک اور شام 6سے 8بجے تک)یہ ریل گاڑیاں مسافروں سے کھچا کھچ بھری رہتی ہیں۔ لندن میں رہنے والے پنشنرز کو پبلک ٹرانسپورٹ میں مفت سفر کی سہولت حاصل ہے جبکہ 16سال سے کم عمر کے بچے بھی اپنے خصوصی اویسٹر کارڈ کی وجہ سے مفت سفر کر سکتے ہیں۔ لندن انڈر گراؤنڈ کی تقریباً ساڑھے پانچ سو ٹرینز 249میل لمبے ٹریک نیٹ ورک پر رواں دواں رہتی ہیں۔لندن میں 272ٹیوب سٹیشنز ہیں جن میں ایک سٹیشن ہیمپسٹڈ(HAMPSTEAD) زمین سے 2سو فٹ کی گہرائی پر ہے جس کے پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لئے 320سیڑھیاں نیچے اترنا پڑتی ہیں لیکن یہاں ہر انڈر گراؤنڈ سٹیشن پر جدید لفٹس اور ایسکلیٹر کی وجہ سے مسافروں کو سیڑھیاں استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی۔ دوسری جنگِ عظیم میں لندن انڈر گراؤنڈ کے اِن زیر زمین سٹیشنز کو پناہ گاہوں (بنکرز) کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ لندن کا یہ انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم جسے ٹیوب بھی کہا جاتا ہے 161سال قدیم ہے۔ 10جنوری 1863ء کو اس ٹرین سسٹم کا آغاز ہوا تھا جس کے بعد سے مسلسل اس کی بہتری، اس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کے نیٹ ورک میں توسیع کا کام جاری ہے۔ انگریزوں اور یورپی قوموں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی عمارت، ادارے، نیٹ ورک یا سسٹم کو بنا کر اُسے حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے بلکہ اُن کی مینٹی نینس (دیکھ بھال) اور انہیں جدید سہولتوں سے مزین کرنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کے علاوہ پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں سیکڑوں برس قدیم عمارتیں، نوادرات، مخطوطات اور آثار آج بھی محفوظ اور سلامت ہیں جو برطانیہ آنے والے سیاحوں کے لئے بڑی دلچسپی اور کشش کا باعث ہیں۔ لندن کی سرخ ڈبل ڈیکر بسیں اس شہر کی خاص پہچان ہیں، یہ پورے دارالحکومت کی سڑکوں پر دن رات رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ فار لندن (ٹی ایف ایل) کے محکمے میں دوسرا سب سے بڑا نیٹ ورک اِن سرخ بسوں کا ہے۔ اِن بسوں کی کل تعداد 8776 بتائی جاتی ہے جو شہر کے سات سو مختلف روٹس تک مسافروں کو لانے لے جانے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتی ہیں۔ لندن میں بسوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنے کا آغاز 1829میں ہوا۔ ابتداء میں چھوٹی چھوٹی بسیں بنائی گئیں جن میں صرف چند مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی اورا نہیں گھوڑوں کے ذریعے کھینچ کر چلایا جاتا تھا۔ پھر 1830ء میں سرگولڈورتھی گرنی نے بھاپ سے چلنے والی بس ایجاد کی۔ 1890ء میں پہلی موٹر بس بنائی گئی جس کے بعد اومنی بس کی ترقی کا سفر شروع ہوا اور آج دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بس سروس کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پہلی بس لندن میں بنائی گئی تھی اور بس سروس کی ابتداء بھی اسی شہر سے ہوئی۔ بس اور ٹرین دونوں کے موجد برطانوی سائنس دان تھے۔ اگر آپ لندن شہر کی سو سال پرانی تصاویر دیکھیں تو ان میں قدیم بسیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ تصاویر سے یاد آیا، گذشتہ دِنوں مجھے ایک دوست نے ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کی کراچی کی کچھ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر وٹس ایپ پر بھیجیں۔ کچھ تصویروں میں ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام بھی کراچی کی سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے اِن دونوں سواریوں کو استعمال میں لایا جاتا تھا۔ کس قدر افسوس ناک حقیقت ہے کہ گزرنے والے 75برسوں میں ہمارے ملک کے ارباب اختیار نے پبلک اور ٹرانسپورٹ دونوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ آپ کبھی سنٹرل لندن اور خاص طور پر ایجوئیر روڈ کی طرف جائیں تو وہاں جگہ جگہ سائیکل رکشے سڑکوں پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔ سیاح اِن سائیکل رکشوں پر سواری سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اِن رکشوں کو پلوشن فری یعنی ماحول دوست ٹرانسپورٹ سمجھا جاتا ہے۔ اِن سائیکل رکشوں کو نوجوان گورے چلاتے اور پاؤنڈ کماتے ہیں۔ایک زمانے میں ایسے ہی سائیکل رکشے میرے شہر بہاول پور میں چلا کرتے تھے، معلوم نہیں 1990ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو اس ماحول دوست اور غریب پرور مقامی سواری میں کیا خرابی نظر آئی کہ انہوں نے بہاول پور اور دیگر شہروں میں سائیکل رکشہ پر پابندی لگا دی اور اُن کی جگہ موٹر رکشے اور پیلی ٹیکسی کو متعارف کرایا جن کی وجہ سے نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا بلکہ اِن رکشوں کے سائیلنسرز سے نکلنے والے شور نے شہر کا سکون غارت کر دیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اب میاں نوز شریف لندن میں ایونز فیلڈز اپارٹمنٹس کے گرد کبھی کسی گورے کو سائیکل رکشہ چلاتے ہوئے دیکھتے ہوں گے تو اُن کو بہاول پور کے سائیکل رکشے اور اُن پر لگائی جانے والی پابندی بھی یاد آتی ہو گی؟ لندن کے علاؤہ برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر ٹاؤن اور گاؤں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت اور دستیابی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کے علاؤہ پورے یورپ میں عوام کے لئے جدید اور آرام دہ ٹرین/میٹرو سروس، ٹرام اور بسیں دستیاب ہیں اور جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد اور گنجائش بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ ہر ملک میں اکثریتی آبادی یعنی عوام کے لئے آسانی اور سہولت کی فراہمی کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں عوام کی بجائے خواص اور مراعات یافتہ طبقے کو ہر آسائش اور سہولت حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اس معاملے سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے ملک کے بوڑھے بچے خواتین اور خاص طور پر غریب طبقہ کس طرح دھواں چھوڑتی ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھاتا اور تکلیفیں اُٹھاتا ہے۔ جس طرح لندن میں ارکان پارلیمنٹ، ججز، فوجی افسر، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور اہم شخصیات پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرتی ہیں اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ہمارے اِن مراعات یافتہ طبقات کو دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ یعنی کھٹارہ ویگنوں اور بسوں میں سفر کرنا پڑے تو انہیں احساس ہو کہ ہمارے ملک کے لاکھوں لاچار اور مجبور لوگ روزانہ کس کس طرح کی مشکلات اور مصیبتوں سے گزر کر سفر کرتے اور حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ ہمارے یہ حکمران لندن بھی آتے رہتے ہیں اور یہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ اور سسٹم کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کسی اچھے سسٹم کی تقلید کرنے کی بجائے اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی فیملی کو لندن میں ہی سیٹ کرنے کی کوئی راہ ہموار کر لیں یعنی ملک کی حالت سنوارنے کی بجائے اپنی فیملی کی حالت سنوارنا ہمارے حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور معلوم نہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
٭٭٭