وزیر اعظم میاں شہباز شریف وطن واپس پہنچ گئے ہیں لیکن وہ اب انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں ان پر شدید دباو ہے جنرل باجوہ کے الوداعی دوروں سے قبل تک وہ کمفرٹیبل زون میں تھے انھیں صرف عمران خان کے احتجاج کا سامنا تھا باقی سب انھیں سپورٹ کر رہے تھے لیکن اب جبکہ واضح ہو گیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی رخصتی یقینی ہو گئی ہے تو ان کو کئی قسم کے دباو فیس کرنا پڑ رہے ہیں سب سے بڑا دباو انھیں اپنے بڑے بھائی اور رہبر کی جانب سے ہے وہ آرمی چیف کی تقرری پر اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں جبکہ اتحادیوں کی اپنی خواہشات ہیں خاص کر آصف علی زرداری اپنے سابق ملٹری سیکرٹری کو آرمی چیف بنوانے کی خواہش رکھتے ہیں آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کچھ نئی ڈویلپمنٹس ہوئی ہیں ایک نیا سرپرائز نام بھی آسکتا ہے موجودہ ملکی صورتحال میں جلد الیکشن کے مطالبہ پر بھی شدید دباو ہے کہ اس بارے میں مفاہمت کا راستہ نکالا جائے جبکہ بھائی جان کہتے ہیں کہ میں نے پہلے کہا تھا حکومت نہ لیں اب لے لی ہے تو ہرگز نہ چھوڑیں اسٹیبلشمنٹ میں تبدیلیوں کی وجہ سے مکمل سپورٹ والے حالات نہیں رہے جہاں تک تعلق نئے آرمی چیف کی تقرری کا ہے تو معاملہ صرف سٹک پکڑنے تک ہے جس کسی نے بھی سٹک پکڑ لی سب سے پہلے اس کے نزدیک اپنے ادارے کے وقار کو بہتر بنانا ہو گا وہ اپنے گول سیٹ کرے گا ٹاپ کے 5، 6 جرنیلوں میں سے کسی ایک نے آرمی چیف بننا ہے اور کسی ایک نے چیرمین جائینٹ چیفس آف سٹاف بننا ہے کوئی کسی کا جرنیل نہیں ہوتا جنرل صرف آرمی کا ہوتا ہے لہذا اس بحث پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ کون ہو گا اصل معاملہ واضح ہو چکا ابہام بھی دور ہو چکے جب سے جنرل قمر جاوید کی ریٹائرمنٹ واضح ہوئی ہے حالات میں تھوڑا ٹھراو نظر آ رہا ہے حکومت مکمل خاموش ہے جبکہ تحریک انصاف کے احتجاج کی شدت میں بھی کمی آچکی دراصل تحریک انصاف بظاہر نئے الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے لانگ مارچ کر رہی تھی اور ایک دباو بڑھا رہی تھی لیکن کہتے ہیں سجی دکھا کر کھبی مارنا لیکن اس احتجاج کا بڑا مقصد حاصل ہو چکا اب اگر انھیں الیکشن کی کوئی بھی تاریخ دے دی جائے تو وہ مان جائیں گے ہماری تین روز قبل گورنر ہاوس میں صدر مملکت عارف علوی صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں مختلف ایشوز پر گفتگو ہوئی بظاہر انھوں نے بڑے محتاط انداز میں جواب دیے لیکن ان کی باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ موجودہ حالات کو نارملائز کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں آخر کار نئے انتخابات میں تو جانا ہی پڑے گا صدر مملکت کی کوشش ہے کہ وہ سب جماعتوں کو مفاہمت کے ساتھ الیکشن میں لے جانے پر آمادہ کریں مطلب یہ ہے کہ الیکشن میں سب کو یکساں ماحول محسوس ہو اور اس کے لیے بنیادی چیزیں طے کر لی جائیں اگر سیاسی جماعتیں الیکشن کا میکنزم طے کر لیتی ہیں تو اتفاق رائے سے کوئی تاریخ بھی طے کی جا سکتی ہے اس کے لیے صدر مملکت اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بظاہر سیاسی جماعتوں کے مابین تلخیاں بہت شدید ہیں لیکن پس پردہ معاملات پر بات چیت چل رہی ہے اور توقع ہے کہ معاملات کا قابل قبول حل نکال لیا جائے گا سارے فریق انتہاوں کو چھو کر واپسی کی راہ پکڑ رہے ہیں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد سیاسی ماحول بہت حد تک بدل چکا ہو گا حکومت کی کوشش تھی کہ وہ اقتصادی صورتحال میں کچھ بہتری کر کے الیکشن میں جائے اس کے لیے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے اپنے تائیں بہت کوششیں بھی کی ہیں لیکن انھیں کہیں سے بھی معاشی آکسیجن کا سلنڈر نہیں مل رہا اوپر سے سعودی فرمانروا کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا ہے اگر وہ پاکستان آجاتے تو حکومت لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے بڑا کچھ کر سکتی تھی آنے والے دنوں میں اقتصادی مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں حکومت پر مختلف قسم کے دباو بھی شدید ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں جتنا جلدی ہو جائے حکومت کو یو ٹرن لے لینا چاہیے ورنہ اباوٹ ٹرن لینا پڑے گا کیونکہ سب کو علم ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہونے والے ہیں اور پتہ نہیں کس کی حکومت بنتی ہے اس لیے لوگ آنے والی حکومت کے ساتھ معاملات طے کریں گے یا وہ آنے والے آرمی چیف کی گارنٹی چاہیں گے اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے ہمیں الیکشن میں چلے جانا چاہیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں تمام تر مسائل کا حل انتخابات ہی ہیں حکومت کی خلوص نیت سے کی جانے والی کوششیں بھی رائیگاں جا رہی ہیں۔
206