تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ایک بار پھر صدارتی نظام کی بات کی ہے کہ صدارتی نظام ایک مستحکم نظام ہے چونکہ اس وقت ساری قوم کی نظریں آرمی چیف کی تقرری کی طرف لگی ہوئی ہیں اس لیے اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا لیکن ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کہ موجودہ نظام ناکام ہو چکا ہے یہ ڈیلیور نہیں کر پا رہا اس لیے وہ نظام بدلنے کے حق میں ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت کی بات کرتے ہیں وہ قوم سے واضح دو تہائی اکثریت والا مینڈیٹ مانگ رہے ہیں اگر انھیں دو تہائی اکثریت مل جاتی ہے تو وہ لازمی طور پر صدارتی نظام کی طرف جائیں گے اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ہمارے ہاں اسی نظام کے تحت متعدد جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں لیکن عوام کسی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور نہ ہی کوئی جماعت عوامی توقعات پر پورا اتر سکی ہے کوئی سیاسی جماعت ڈیلیور نہیں کر پائی اس کا مطلب ہے کہ نظام کے اندر کہیں خرابی ہے اس انتخابی نظام کو بااثر افراد نے ہائی جیک کر رکھا ہے اب تو حلقوں پر لوگوں کے قبضے ہو چکے ہیں ان تین چار لوگوں یا خاندانوں جن کی اس حلقے میں اجارہ داری ہے کے علاوہ کوئی نہ تو الیکشن کا سوچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی الیکشن جیت سکتا ہے سیاسی جماعتیں ان ہی الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہیں اور پھر یہ اپنے حلقوں کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنے حلقوں میں اپنی مرضی کی انتظامیہ اور پولیس لگواتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں یہ الیکٹ ایبلز اپنی جماعتوں کو بھی بلیک میل کرتے ہیں سیاسی جماعتیں بھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے ان کو ہر حال میں خوش رکھتی ہیں اگر صدارتی نظام ہوتا تو نہ رجیم چینج ہوتا نہ سندھ ہاوس میں ہارس ٹریڈنگ کی منڈی لگتی ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کی خرابیوں نے لوگوں کو سیاست سے ہی بدظن کر دیا ہے ہمارے ہاں جو دو تین بار صدارتی نظام رہا ہے حالانکہ وہ فوجی آمریتوں کا نظام تھا لیکن اس نے پارلیمانی نظام سے بہتر ڈیلیور کیا ہے ہمارے پاس ترکی کی مثال موجود ہے انھوں نے بھی پارلیمانی نظام کو خیر باد کہہ کر صدارتی نظام کو اپنا لیا ہے اور وہ استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ ڈلیور بھی کر رہے ہیں ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت حکومت میں ہونے کے باوجود کہتی ہے کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں تھے اہم فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں مطلوبہ تعداد نہیں تھی ہم اپنے منشور پر عمل نہ کروا سکے اگر صدارتی نظام ہو تو ان تمام خرافات سے جان چھڑوائی جا سکتی ہے پارٹی سربراہ یا پارٹی جس کو بھی اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرے اسے پورے ملک سے ووٹ پڑیں جس جماعت کو جتنے ووٹ پڑیں اس تناسب سے اسے پارلیمنٹ میں نشستیں آلاٹ کر دی جائیں اس سے ایک تو فیڈریشن مضبوط ہو گی علاقائیت سے چھٹکارا مل جائے گا حلقوں کے روائیتی امیدواروں بدمعاشوں رسہ گیروں سے جان چھوٹ جائے گی ہر سیاسی جماعت سسٹم کو چلانے کے لیے سمجھدار سیاستدانوں ٹیکنوکریٹس پروفیشنل لوگوں کو اسمبلی کا ممبر نامزد کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی پھر کسی کو وزیر خزانہ نہیں ڈھونڈنا پڑے گا آپ اپنی مرضی کی ٹیم بنا سکیں گے 5سال کے بعد آپ قوم کو جوابدہ ہوں گے اور جو ڈلیور کرے گا وہ آئیندہ بھی جیت جائے گا اب اکثریتی ووٹ لینے والی جماعت فنی بنیادوں پر اپوزیشن میں بیٹھی ہوتی ہے اور اقلیتی ووٹ لینے والی جماعت زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا رہی ہوتی ہے قومی سیاست کی نالیوں سولنگ اور گلی محلے کے سوک مسائل سے باہر نکل آئے گی بریانی اور قیمے والے نان کھلا کر ووٹ حاصل کرنے والوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی لوگ اجتماعی سوچ کو ووٹ دیں گے مقامی مسائل کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی مقامی مسائل کے حل میں ہی الجھے رہتے ہیں وہ قومی سیاست میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکتے جس کا قومی سیاست تقاضہ کر رہی ہوتی ہے صدارتی نظام پر باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ ڈائیلاگ ہونے چاہئیں اور اتفاق رائے کے ساتھ ہمیں سسٹم تبدیل کر لینا چاہیے
222