202

سیاست دشمنی میں تبدیل ہو رہی ہے

ہم نے پیپلزپارٹی اور قومی اتحاد کی سیاست کا وہ وقت دیکھا ہوا ہے جب سیاسی ماحول اتنا پراگندہ ہو گیا تھا کہ سیاست کے نام پر رشتہ داروں میں دشمنیاں پڑ گئی تھیں رشتے داروں نے سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر ایک دوسرے کو ملنا چھوڑ دیا تھا مخالف نظریہ رکھنے والوں کی طرف رشتے نہیں کیے جاتے تھے ایک دوسروں کے جنازوں اور شادی بیاہوں میں شرکت نہیں کی جاتی تھی پھر ہم نے اس انتشار کا انجام بھی دیکھ لیا سب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے حالات پھر سیاستدان اسی طرف لے کر جا رہے ہیں کسی چیز کی بھی انتہا درست نہیں ہوتی لیکن آج کل جو کچھ ہو رہا ہے یہ انتہا سے بھی کوئی اگلا مقام ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس سے بہتری کی گنجائش نکل آئے گی یا کوئی کسی کو ختم کر کے جشن فتح منا لے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے یہ راستے تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں اور ہماری ساری سیاسی قوتیں بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ اس ٹریک پر ایک دوسری سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدلتے جا رہے ہیں مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہیں معاشرے اور ریاست کا کیا نقصان ہو رہا ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں صرف ہاتھ آئی چیز چھوٹ جانے کا خدشہ ہے مجھے تو تماشہ دیکھنے والوں پر بھی حیرت ہے کہ ،مٹ جائے گی خلق خدا تو انصاف کرو گے ،ان سیاسی کھلاڑیوں میں اتنی عقل بھی نہیں کہ یہ کہیں رک جائیں یہ لڑ لڑ کر اپنا آپ بھی تباہ کر لیں گے اور ملک کا بھی ستیاناس کر دیں گے لہذا اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو کر لے انتظار کس چیز کا کیا جا رہا ہے کیا کسی ایکشن کے لیےاس سے زیادہ مہنگائی، لاقانونیت اورافراتفری درکار ہے ملک کا بیڑہ غرق ہوتا جا رہا ہے اور ہم سیاسی چالوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اب یہ ملک مزید سیاسی کھیل تماشوں اور سیاسی جادوگری کا متحمل نہیں ہو سکتا اب سیاسی اتفاق رائے کے ذریعے معاملات سمیٹنے اور آگے چلنے کا وقت ہے اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی دشمنیوں سے سرنڈر نہ کیا تو بات اب بیان بازی سے خون خرابے کی طرف بڑھ رہی ہے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے شہباز گل کو گرفتار کر کے اس پر وحشیانہ تشدد کرکے اور انسانیت سوز معاملات سے گزار کر تحریک انصاف کی طرف نیوندرا ڈال دیا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا انسانیت بھی شرمندہ ہے کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آج کے دور میں کسی سیاسی ورکر کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا سکتا ہے اوپر سے اس کے ساتھ کسی کو ملنے بھی نہیں دیا جا رہا پی ڈی ایم کی حکومت شہباز گل کو بڑا لیڈر بنانے پر تلی ہوئی ہیں رانا ثناءاللہ بھی اسی طرح وزیر داخلہ بنے ہیں اگر کل کو شہباز گل بھی وزیر داخلہ بن گیا تو کیا وہ اپنے مخالفین کے ساتھ گلی ڈنڈا نہیں کھیلے گا وفاقی حکومت نے جو کرنا تھا کر لیا اگر جواب میں پنجاب حکومت نے بھی کوئی ایسا ہی پلان بنا لیا تو کیا بنے گا جیسا کہ درجن بھر ن لیگی اراکین کے سمن جاری ہو چکے ہیں اگر ان میں سے چند ایک پنجاب پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور انھوں نے بھی ان سے وہی سلوک کیا جو شہباز گل کے ساتھ ہوا ہے تو اس کے بعد حالات کیسے ہوں گے اللہ نہ کرے کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں ن لیگ والے اسلام آباد میں مورچہ زن ہو کر بیٹھ جائیں اور تحریک انصاف والے پنجاب خیبر پختون خواہ جی بی اور آذاد کشمیر میں مورچے سنبھال لیں معاملات کو یہیں روک لینا چاہیے شہباز گل کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا ہے اس پر فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے معاملے کو احتجاج کی طرف نہ جانے دیا جائے یہ نظام فطرت ہے کہ انصاف میں اللہ نے صبر رکھا ہے اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہو اور اسے منصف سزا بھی سنا دے تو اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے اس کی مجھے سزا مل رہی ہے بے شک وہ لوگوں کو سنانے کے لیے اور اپنی جان بخشی کے لیے جتنے مرضی واویلے کرتا رہے لیکن اندر سے وہ مطمئن ہوتا ہے کہ مجھے کیے کی سزا مل رہی ہے لیکن اگر کسی کو سبق سیکھانے کے لیے فکس کیا جارہا ہو ماورائے عدالت اقدامات کیے جاتے ہیں تو نہ صرف وہ خود سسٹم سیاسی بغاوت کی طرف مائل ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی اس کی تقلید کرتا ہے اگر شہباز گل نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر فرد جرم عائد کی جائے اسے ثابت کیا جائے پراسس مکمل کیا جائے اور جو قانون کے مطابق سزا بنتی ہے وہ دی جائے ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا کبھی جرم کم نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدلہ لینے کے جذبات ابھرتے ہیں اور مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہیں شہباز گل کے واقعہ میں بھی قانون کی ناک مروڑ کر نہ صرف اسے سبق سیکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ باقیوں کو بھی زبان بندی کا درس دیا جا رہا ہے حالات ہر آنے والے دن میں خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں طرح طرح کی کہانیاں جنم لے رہی ہیں ہر لمحے عدم استحکام بڑھ رہا ہے تحریک انصاف سمجھ رہی ہے کہ اسے زبردستی دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے ایک طبقہ یہ بھی سوچ رکھتا ہے کہ چونکہ پاکستان میں کسی کو بھی پاپولر لیڈر شپ قابل قبول نہیں عمران خان جوں جوں عوام میں مقبولیت پکڑتے جا رہے ہیں اپنے راستے معدود کرتے جا رہے ہیں بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں گزارے لائق قیادتیں ہوں جو ان کی مرہون منت رہیں پاکستان کے حالات بھی مستحکم نہ ہوں تاکہ اپنی مرضی کے اقدامات کروائے جا سکیں دوسرے لفظوں میں ان کو ہر وقت اپنی پڑی رہے ان کی سوچ دور رس اقدامات کی طرف نہ جا سکے اور ان کے پاس جی حضوری کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ ہو یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ہر وقت عدم استحکام کا شکار رکھا جاتا ہے حالات یہ ہیں کہ اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں اندرون ملک ساری سیاسی قوتیں اور بین الاقوامی طاقتیں اس وقت عمران خان کو کینڈے میں لانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں دوسری طرف تحریک انصاف کا ورکر بھی اس وقت چارج ہے اس سے کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے احتجاجی ریلیوں سے معاملات تحریک کی طرف بھی جا سکتے ہیں یہ الیکشن ائیر ہے آخر کار سیاسی جماعتوں نے عوام میں جانا ہے ماحول میں اتنی تلخی نہ پیدا کی جائے کہ جب سیاسی جماعتیں عوام میں جائیں تو دست وگریبان ہوں آنے والے الیکشن کو خونی الیکشن بنانے سے روکا جائے عمران خان نے شہباز گل کے معاملے میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو اس احتجاجی ریلی کا رزلٹ بھی سامنے آچکا ہو گا لیکن کہیں سے بھی خیر کی توقع نظر نہیں آ رہی اللہ ہی ہے ان کے دلوں میں صلح کی جوت جلا دے اور پاکستان کو انتشار سے بچا لے ورنہ آگ چاروں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے