ہم نے پیپلزپارٹی اور قومی اتحاد کی سیاست کا وہ وقت دیکھا ہوا ہے جب سیاسی ماحول اتنا پراگندہ ہو گیا تھا کہ سیاست کے نام پر رشتہ داروں میں دشمنیاں پڑ گئی تھیں رشتے داروں نے سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر ایک دوسرے کو ملنا چھوڑ دیا تھا مخالف نظریہ رکھنے والوں کی طرف رشتے نہیں کیے جاتے تھے ایک دوسروں کے جنازوں اور شادی بیاہوں میں شرکت نہیں کی جاتی تھی پھر ہم نے اس انتشار کا انجام بھی دیکھ لیا سب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے حالات پھر سیاستدان اسی طرف لے کر جا رہے ہیں کسی چیز کی بھی انتہا درست نہیں ہوتی لیکن آج کل جو کچھ ہو رہا ہے یہ انتہا سے بھی کوئی اگلا مقام ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس سے بہتری کی گنجائش نکل آئے گی یا کوئی کسی کو ختم کر کے جشن فتح منا لے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے یہ راستے تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں اور ہماری ساری سیاسی قوتیں بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ اس ٹریک پر ایک دوسری سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدلتے جا رہے ہیں مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہیں معاشرے اور ریاست کا کیا نقصان ہو رہا ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں صرف ہاتھ آئی چیز چھوٹ جانے کا خدشہ ہے مجھے تو تماشہ دیکھنے والوں پر بھی حیرت ہے کہ ،مٹ جائے گی خلق خدا تو انصاف کرو گے ،ان سیاسی کھلاڑیوں میں اتنی عقل بھی نہیں کہ یہ کہیں رک جائیں یہ لڑ لڑ کر اپنا آپ بھی تباہ کر لیں گے اور ملک کا بھی ستیاناس کر دیں گے لہذا اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو کر لے انتظار کس چیز کا کیا جا رہا ہے کیا کسی ایکشن کے لیےاس سے زیادہ مہنگائی، لاقانونیت اورافراتفری درکار ہے ملک کا بیڑہ غرق ہوتا جا رہا ہے اور ہم سیاسی چالوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اب یہ ملک مزید سیاسی کھیل تماشوں اور سیاسی جادوگری کا متحمل نہیں ہو سکتا اب سیاسی اتفاق رائے کے ذریعے معاملات سمیٹنے اور آگے چلنے کا وقت ہے اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی دشمنیوں سے سرنڈر نہ کیا تو بات اب بیان بازی سے خون خرابے کی طرف بڑھ رہی ہے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے شہباز گل کو گرفتار کر کے اس پر وحشیانہ تشدد کرکے اور انسانیت سوز معاملات سے گزار کر تحریک انصاف کی طرف نیوندرا ڈال دیا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا انسانیت بھی شرمندہ ہے کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آج کے دور میں کسی سیاسی ورکر کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا سکتا ہے اوپر سے اس کے ساتھ کسی کو ملنے بھی نہیں دیا جا رہا پی ڈی ایم کی حکومت شہباز گل کو بڑا لیڈر بنانے پر تلی ہوئی ہیں رانا ثناءاللہ بھی اسی طرح وزیر داخلہ بنے ہیں اگر کل کو شہباز گل بھی وزیر داخلہ بن گیا تو کیا وہ اپنے مخالفین کے ساتھ گلی ڈنڈا نہیں کھیلے گا وفاقی حکومت نے جو کرنا تھا کر لیا اگر جواب میں پنجاب حکومت نے بھی کوئی ایسا ہی پلان بنا لیا تو کیا بنے گا جیسا کہ درجن بھر ن لیگی اراکین کے سمن جاری ہو چکے ہیں اگر ان میں سے چند ایک پنجاب پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور انھوں نے بھی ان سے وہی سلوک کیا جو شہباز گل کے ساتھ ہوا ہے تو اس کے بعد حالات کیسے ہوں گے اللہ نہ کرے کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں ن لیگ والے اسلام آباد میں مورچہ زن ہو کر بیٹھ جائیں اور تحریک انصاف والے پنجاب خیبر پختون خواہ جی بی اور آذاد کشمیر میں مورچے سنبھال لیں معاملات کو یہیں روک لینا چاہیے شہباز گل کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا ہے اس پر فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے معاملے کو احتجاج کی طرف نہ جانے دیا جائے یہ نظام فطرت ہے کہ انصاف میں اللہ نے صبر رکھا ہے اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہو اور اسے منصف سزا بھی سنا دے تو اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے اس کی مجھے سزا مل رہی ہے بے شک وہ لوگوں کو سنانے کے لیے اور اپنی جان بخشی کے لیے جتنے مرضی واویلے کرتا رہے لیکن اندر سے وہ مطمئن ہوتا ہے کہ مجھے کیے کی سزا مل رہی ہے لیکن اگر کسی کو سبق سیکھانے کے لیے فکس کیا جارہا ہو ماورائے عدالت اقدامات کیے جاتے ہیں تو نہ صرف وہ خود سسٹم سیاسی بغاوت کی طرف مائل ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی اس کی تقلید کرتا ہے اگر شہباز گل نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر فرد جرم عائد کی جائے اسے ثابت کیا جائے پراسس مکمل کیا جائے اور جو قانون کے مطابق سزا بنتی ہے وہ دی جائے ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا کبھی جرم کم نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدلہ لینے کے جذبات ابھرتے ہیں اور مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہیں شہباز گل کے واقعہ میں بھی قانون کی ناک مروڑ کر نہ صرف اسے سبق سیکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ باقیوں کو بھی زبان بندی کا درس دیا جا رہا ہے حالات ہر آنے والے دن میں خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں طرح طرح کی کہانیاں جنم لے رہی ہیں ہر لمحے عدم استحکام بڑھ رہا ہے تحریک انصاف سمجھ رہی ہے کہ اسے زبردستی دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے ایک طبقہ یہ بھی سوچ رکھتا ہے کہ چونکہ پاکستان میں کسی کو بھی پاپولر لیڈر شپ قابل قبول نہیں عمران خان جوں جوں عوام میں مقبولیت پکڑتے جا رہے ہیں اپنے راستے معدود کرتے جا رہے ہیں بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں گزارے لائق قیادتیں ہوں جو ان کی مرہون منت رہیں پاکستان کے حالات بھی مستحکم نہ ہوں تاکہ اپنی مرضی کے اقدامات کروائے جا سکیں دوسرے لفظوں میں ان کو ہر وقت اپنی پڑی رہے ان کی سوچ دور رس اقدامات کی طرف نہ جا سکے اور ان کے پاس جی حضوری کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ ہو یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ہر وقت عدم استحکام کا شکار رکھا جاتا ہے حالات یہ ہیں کہ اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں اندرون ملک ساری سیاسی قوتیں اور بین الاقوامی طاقتیں اس وقت عمران خان کو کینڈے میں لانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں دوسری طرف تحریک انصاف کا ورکر بھی اس وقت چارج ہے اس سے کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے احتجاجی ریلیوں سے معاملات تحریک کی طرف بھی جا سکتے ہیں یہ الیکشن ائیر ہے آخر کار سیاسی جماعتوں نے عوام میں جانا ہے ماحول میں اتنی تلخی نہ پیدا کی جائے کہ جب سیاسی جماعتیں عوام میں جائیں تو دست وگریبان ہوں آنے والے الیکشن کو خونی الیکشن بنانے سے روکا جائے عمران خان نے شہباز گل کے معاملے میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو اس احتجاجی ریلی کا رزلٹ بھی سامنے آچکا ہو گا لیکن کہیں سے بھی خیر کی توقع نظر نہیں آ رہی اللہ ہی ہے ان کے دلوں میں صلح کی جوت جلا دے اور پاکستان کو انتشار سے بچا لے ورنہ آگ چاروں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے
210