سیاستدان عوام کی خدمت کے لیے سیاست میں آتے ہیں اپنا سکھ چین عوام پر قربان کر دیتے ہیں ناں دن دیکھتے ہیں ناں رات عوام کی خدمت میں جت جاتے ہیں ان کی زندگی عوام کے لیے وقف ہوتی ہے فیملی کو وقت نہیں دے پاتے جیب سے پیسے خرچ کر کے ملک وقوم کی خدمت کرتے ہیں پھر بھی گالیاں کھاتے ہیں کیونکہ وہ عوامی خدمت سے سرشار ہوتے ہیں پہلے زمانے کے سیاستدان اپنے اثاثے بیچ کر سیاست کرتے تھے یہ اثاثے بنا کر سیاست کرتے ہیں یہ جب سیاست میں آتے ہیں اس وقت ان کے اثاثے کتنے ہوتے ہیں اور جو چند سال عوام کی خدمت کر لیتا ہے اس کے اثاثوں میں ایسی خیر وبرکت ڈلتی ہے کہ پھر اس کی کئی نسلوں کو کام کرنے ضرورت نہیں رہتی شریف اور زرداری فیملی کے پاس اتنے اثاثے ہیں کہ ان کی اگلی کئی نسلیں نوٹوں کو آگ لگا کر اس پر کھانا پکائیں تو پھر بھی کئی دہائیوں تک نوٹ ختم نہیں ہو سکتے لیکن دولت کی حرص اس قدر ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی دوسری جانب عزت کی اس معراج پر ہیں کہ ہر روز ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کر رہے ہوتے ہیں۔
میں پچھلے 34 سال سے دیکھ رہا ہوں اپوزیشن ہر حکومت بارے کہہ رہی ہوتی ہے حکمرانوں نے ملک کی بقا خطرے میں ڈال دی ہے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا ہے ہم ملک بچانے نکلے ہیں کئی دفعہ پیپلزپارٹی نے ملک بچایا پھر کئی دفعہ ن لیگ نے ملک بچایا پھر ایک دفعہ ق لیگ نے ملک بچایا پھر جب ساروں نے ملک تباہ کر دیا تو عمران خان ملک بچانے آگئے اب سارے پی ڈی ایم والے کہتے ہیں یم نے اپنی سیاست تباہ کر کے ریاست بچا لی ہے اگر عمران خان کی حکومت چند دن اور رہ جاتی تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے اب عمران خان کہہ رہا ہے ان سے ملک نہیں چل پا رہا اگر یہ کچھ دن اور رہ گئے تو ملک کا حال سری لنکا جیسا ہو جائے گا مجھے اقتدار میں آنے کی کوئی جلدی نہیں لیکن یہ جتنے دن رہیں گے ملک کا اتنا ہی نقصان بڑھتا جائے گا اس لیے فوری طور پر الیکشن کروانے جائیں حکمران حکومت نہیں کر رہے چوبیس گھنٹے حکومت بچانے کے چکروں میں رہتے ہیں تحریک انصاف ہر وقت حکومت گرا کر نئے الیکشنوں کی راہ نکالنے پر لگی ہوئی ہے اور پاکستان کے تمام سیاستدان عوامی خدمت پر لگے ہوئے ہیں حکمران اقتدار کی کرسی پر اس طرح چپک کر بیٹھے ہیں جیسے کرسی کو ایلفی لگ گئی ہو اگر سمجھ لگ رہی ہے کہ عوام ساتھ نہیں رہے تو زیادہ دیر چپکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں چونکہ دسمبر شروع ہو گیا ہے سال کے آخری مہینے میں حساب کتاب کیا جاتا ہے اس سال کیا کھویا کیا پایا جب یہ سال شروع ہوا تھا تو پی ڈی ایم کی جماعتیں کہہ رہی تھیں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے یہ حکومت رہی تو عوام مر جائیں گے مہنگائی مارچ کیے جا رہے تھے مہنگائی سے نجات دلانے کی جدوجہد کی جا رہی تھی اور ساتھ ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے لایا گیا تھا لہذا عمران کی حکومت ختم کر کے فوری الیکشن کروائیں گے اس وقت عمران خان عوامی پذیرائی کھو رہے تھے وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر پا رہے تھے اپنے سب سے بڑے نعرے احتساب پر عملدرآمد کروانے ملک کی دولت لوٹنے والوں سے ریکوری کرنے میں ناکام ہو رہے تھے ایسے میں پی ڈی ایم نے عدم اعتماد سے عمران خان کی حکومت تو ختم کر دی لیکن اس دوران ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت نے اخلاقی جواز ختم کر دیا دوسرا اقتدار سنبھال کر الیکشن سے انکاری نے عوام سے کیے وعدے سے روگردانی نے عزائم بے نقاب کر دیے تیسرا حکومت نےعوام سے مہنگائی کم کرنے کے وعدے کے الٹ کئی گنا مہنگائی کرکے اپنے پاوں پر کلہاڑا مار لیا اب ہر آنے والے دن میں حکومت کی ناکامی سے عمران خان کی پاپولریٹی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور پی ڈی ایم کے خلاف عوامی غیض وغضب بڑھتا جق رہا ہے اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ نہ بہتری لائی جا رہی ہے نہ عوامی حمایت حاصل ہو پارہی ہے جس فوری الیکشن کا وعدہ کر کے عمران کی حکومت ختم کی گئی تھی وہ الیکشن ڈراونا خواب بن گیا ہے اقتدار پی ڈی ایم کی چھیڑ بن چکی ہے تحریک انصاف عوام میں دندناتی پھر رہی ہے اور پی ڈی عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کے پاس وہ کونسا الہ دین کا چراغ ہے جس سے مہنگائی کے جن کو قابو کر لے گی جس سے عمران خان کی شہرت کو ڈمیج کر کے اپنی ساکھ کو بہتر بنا لے گی جوں جوں حکمران جماعتیں اقتدار کو بچانے کےیے آخری حد تک جا رہی ہیں توں توں عوامی پذیرائی سے محروم ہوتی جا رہی ہیں حکمران جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنا پروگرام لے کر عوام میں جائیں اگر انھیں عوامی پذیرائی ملے تو اقتدار کو بچا لیں ورنہ پھر عوام کو فیصلہ کرنے دیں جہاں تک نفع نقصان کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم کی قیادت کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے تمام نے اپنے کیسز ختم کروا لیے ہیں اور نیب کو پٹاری میں بند کر دیا ہے یہ فیصلہ تاریخ کرے گی کہ سیاست کی قیمت پر مقدمات سے جان چھڑوانا نفع کی تجارت تھی یا نقصان کی