صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں بلا تاخیر 30 اپریل کو پنجاب کے الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا ہے اب الیکشن کمیشن خیبر پختون خواہ کے گورنر کی جانب سے الیکشن ڈے کی تاریخ کے انتظار میں ہے تاکہ ایک ہی بار دونوں کا شیڈول جاری کیا جائے لیکن گورنر خیبر پختون خواہ ابھی بھی گیند کو کبھی ادھر پھینک کبھی ادھر پھینک والی پالیسی پر گامزن ہیں عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن کی مشاورت سے صدر مملکت دوبارہ الیکشن کی تاریخ دے چکے لیکن نہ جانے کیوں ابھی تک الیکشن کے انعقاد بارے غیر یقینی برقرار ہے حکومتی جماعتیں تاحال الیکشن میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہیں نہ جانے دل میں کیا کھوٹ ہے ذہنوں میں کیا پلاننگ چل رہی ہے وزیراعظم ہاوس میں آرمی چیف اور چیرمین جائینٹ چیفس آف سٹاف کی وزیراعظم میاں شہباز شریف سے ملاقاتوں کو بڑا اہم سمجھا جا رہا ہے حکومتی جماعتوں کی جان پر بنی ہوئی ہے اب کیا کریں سیاسی طور پر عمران خان انتخابی پراسس میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہونجا پھیر چکا ہم سمجھتے تھے کہ شہروں کی حد تک ابال آیا ہوا ہے لیکن یہاں تو ہر طرف یکطرفہ ہوا چل پڑی ہے دیہاتوں سے بھی اسی قسم کی آوازیں آ رہی ہیں گذشتہ روز شیر گڑھ اوکاڑہ سے میرے ایک دوست محمد اصغر، فواد چوہدری کو ملنے آئے ہوئے تھے میں نے اس سے پوچھتا کہ آپ کا تو سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں پھر آپ فواد چوہدری سے کیوں ملنا چاہتے ہیں اس کا کہنا تھا کہ عمران خان سے تو ملاقات بہت مشکل ہے لیکن اس کی ترجمانی کرنے والوں کو ہی دیکھ کر روح راضی کر لیں گے فواد چوہدری جب بولتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی شیر گرج رہا ہو اس نے بتایا کہ چونکہ میں بہت زیادہ سوشل ورک کرتا ہوں لوگوں سے رابطہ رہتا ہے میں جس بھی گاوں میں جاتا ہوں عمران خان عمران خان ہو رہی ہے، عمران خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ہی اگلے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی تھیں اس کے برعکس پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اقتدار ضرور حاصل کر لیا لیکن عمران خان نے ان کے پاوں نہیں لگنے دیے نہ ہی ان سے معاملات سنبھالے گئے اور نہ ہی معاملات چلا سکے حکومت کا سارا فوکس اپنے مقدمات ختم کروانے اور عمران کو دبانے پر تھا جبکہ ہر آنے والے دن میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا عوام کا اعتماد مجروح ہوتا گیا حکومت عمران خان کو جتنا دباتی رہی وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آتا گیا اب حکومت چاروں طرف سے گھیرے میں ہے ملکی معاملات میں ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے حکومتی جماعتوں کو کوئی راستہ سلجھائی نہیں دے رہا حکومت پھس گئی جان شکنجے اندر ایں جیویں ویلن وچ گنا کی طرح پھنس چکی ہے نہ عوام میں جانے کے قابل رہی ہے نہ حکومت چلانے کے قابل ہے اب بھی راستے تلاش کیے جا رہے ہیں کہ کس طرح الیکشن سے راہ فرار اختیار کی جائے کس طرح اقتدار کو طول دیا جائے اس کے لیے وہ ہر رسک لینے پر تیار ہیں پورے ملک اور 22کروڑ عوام کو سولی پر لٹکایا ہوا ہے آخر کار کب تک کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھ کر وقت ٹپانے کی کارروائی کی جائے گی آخر کار حقیقتوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا اب پوری پی ڈی ایم مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے کہ دو صوبوں کے الیکشن میں کیسے جائیں اگر دو صوبوں کے الیکشن میں جاتے ہیں تو جنرل الیکشن بھی ہاتھ سے جاتا ہے حکومت اب قومی سلامتی کے اداروں کو امتحان میں ڈالے ہوئے ہے ان کی ہرممکن کوشش ہے کہ جیسے تیسے وقت کو ٹالا جائے لیکن لگتا ہے کہ اب فیصلوں کا وقت آچکا ہے اب وقت ٹالنا بہت مشکل ہو جائے گا اب کچھ نہ کچھ ہو کر ہی رہے گا عمران خان نے تو پنجاب میں باقاعدہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے تحریک انصاف پوری طرح الیکشن میں جاچکی اور عوام بھی تیار ہیں لیکن پی ڈی ایم سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔
306