تحریک انصاف نے جلد الیکشن کروانے کے لیے آخری حربے کے طور پر پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلیاں تحلیل کرنے اور قومی اسمبلی کے استعفے منظور کروانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کے حضور پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا اگر تحریک انصاف دونوں اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کامیاب ہو جاتی اور ساتھ ہی ان کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہو جاتے تو عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا لیکن لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کا پیر ڈھڈا ہے جو کوئی حربہ کامیاب نہیں ہونے دے رہا تحریک انصاف نے بہت خوفناک پتہ پھینکا تھا اور انھیں یقین تھا کہ اس سے وفاقی حکومت کم از کم نئے انتخابات پر بات کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی لیکن وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو لٹکا کر یہ حربہ بھی ناکام بنا دیا ہے 11جنوری تک لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کو اسمبلی نہ توڑنے کا پابند بنا دیا ہے اور ساتھ ہی اعتماد کے ووٹ لینے کے لیے فری ہینڈ دے دیا ہے اب چوہدری پرویز الہی کی مرضی ہے وہ اعتماد کا ووٹ لیں یا نہ لیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اب پنجاب اسمبلی ٹوٹتی ہوئی نظر نہیں آ رہی کیونکہ جو تصویر دکھائی جا رہی ہے اس میں یہ خوف غالب رکھا جا رہا ہے کہ ہمیں اعتماد کا ووٹ لینے کی طرف نہیں جانا چاہیئے کیونکہ اگر خدانخواستہ ہم اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہ ہو سکے تو نہ صرف پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ جلد الیکشن والا دباو بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پھر جو انتقامی کارروائی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوگی وہ بہت خوفناک ہو گی اور پنجاب ہاتھوں سے نکل جائے گا اس لیے محفوظ گیم کھیلنے کی طرف جایا جا رہا ہے اب کوشش کی جا رہی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کی بجائے پی ڈی ایم کو مجبور کیا جائے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک لے آئے بہر حال نئی پیدا شدہ صورتحال میں پنجاب اسمبلی ٹوٹتی نظر نہیں آتی باقی عرصہ چوہدری پرویز الہی کی حکومت برقرار رہے گی اور وہ اقتدار کاایک لمحہ ضائع کیے بغیر دن رات کام پر لگے ہوئے ہیں اگر وہ اسی سپیڈ سے لگے رہے اور انھیں چار پانچ ماہ مل گئے تو وہ اگلی پچھلی کسر پوری کر جائیں گے اور اگر پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کسی صورت تحلیل نہیں کی جائے گی دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے اراکین کو انفرادی حیثیت میں بلا کر رولنا چاہتے ہیں اول تو تحریک انصاف کسی صورت اپنے اراکین قومی اسمبلی کو انفرادی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہونے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ اس سے روز ایک نئی کہانی جنم لیا کرے گی اور دوسرا یہ کہ سپیکر روزانہ دو چار لوگوں سے ملاقات کریں گے ان کے ساتھ لمبی چوڑی گپ شپ کیا کریں گے اور پھر درمیان میں مصروفیت کا بہانہ کر کے وقت ٹپاتے جائیں گے اس طرح یہ پراسس کئی مہینے تک جاری رکھیں گے جو پریشر تحریک انصاف ایک ہی دفعہ استعفے دے کر حکومت پر بڑھانا چاہتی ہے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا استعفوں کی تصدیق اور قبولیت میں کئی مہینے لگا دیے جائیں گے معلوم ہوتا ہے کہ ترکش کے تمام تیر وفاقی حکومت کی کمان میں ہیں اور تحریک انصاف کے پاس عوامی شہرت کی صرف ایک ڈھال ہے عمران خان نے پچھلے 8ماہ سے پی ڈی ایم کو عوامی پذیرائی کے ہتھیار سے آگے لگایا ہوا ہے یہ بھی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ ہے عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ سے لے کر اب تک اپنے کارکنوں کو مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہیں پی ڈی ایم کی سوچ تھی کہ چند ماہ کے بعد کارکن بدظن ہو جائیں گے اور تحریک انصاف تھک ہار کر بیٹھ جائے گی تاحال عمران خان اپنے ورکرز کو جلد الیکشن کی تاریخ ملنے کی امید پر متحرک رکھے ہوئے تھے اب تحریک انصاف کا نیا امتحان شروع ہو رہا ہے تحریک انصاف ایک بار پھر احتجاج کی طرف جا رہی ہے ایک طرف موسم کی سختی ہے دوسری جانب ورکرز کی بیزاری کا خطرہ ہے ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ عوامی احتجاج کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے عمران خان ابھی خود میدان عمل میں نکلنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن یہ امر اپنی جگہ پر اہم ہے کہ تحریک انصاف نے جو تاثر ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے اس میں اراکین اسمبلی اور الیکشن لڑنے کے خواہش مند افراد ان کے ووٹر سپورٹرز کو یقین ہے کہ اس بار عمران خان کے کھمبے بھی جیت جائیں گے اس لیے لوگ تسلسل کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان جلد الیکشن پر حکومت کو مجبور نہیں کر پاتے تو اگلے 7ماہ تک یہ مہم اسی طرح چلتی رہے گی اگر پچھلے 8ماہ کی طرح تین چار ماہ تحریک انصاف موثر احتجاج کرنے یا عوامی مہم چلانے میں کامیاب رہی تو پھر جدوجہد کی بھٹی میں تحریک انصاف کندن بن جائے گی اور ہر آنے والا دن پی ڈی ایم کے خوف میں اضافہ کرتا جائے گا
186