241

شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے

وہ پتھر قابلِ رشک ہوتے ہیں جنہیں کوئی ایسا سنگ تراش میسر آ جائے جو اُن میں پوشیدہ مجسموں کی تراش خراش کر کے انہیں ایک شاہکار بنا دے وگرنہ ایسے اَن گنت مجسمے پتھروں میں ہی چھپے رہ جاتے ہیں جنہیں کوئی فنکار یا ہنر مند اپنی تخلیق کے سانچے میں نہیں ڈھالتا۔مجھے یہ خیال لندن میں جگہ جگہ نصب اُن مجسموں کودیکھ کر آتا ہے جو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ برطانوی دارلحکومت میں پتھروں اور دھات سے بنے ہوئے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجسمے مختلف مقامات پر نصب (ایستادہ اور آویزاں) ہیں۔ نامور اور تاریخی شخصیات کے یہ مجسمے نہ صرف اپنے بنانے والوں کے ہنر کا ثبوت ہیں بلکہ یونائیٹڈ کنگڈم کے بہت سے تاریخی، سیاسی، دفاعی اور شاہی حوالوں کی یادگار بھی ہیں۔ لندن کی سیر و سیاحت کو آنے والے غیر ملکی اِن مجسموں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اِن کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بنا کر اپنی سیاحتی یاداشتوں میں محفوظ کر لیتے ہیں، لندن شہر کو اپنے شاندار پارکوں، عجائب گھروں، آرٹ گیلریز اور تاریخی عمارات کے علاوہ اِن مجسموں کی وجہ سے بھی خاص انفرادیت حاصل ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر لگے ہوئے سنگِ مرمر کے مجسمے ہوں یا کسی گرجا گھر (چرچ) میں نصب پتھر کے بت ان کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اسی لئے سیکڑوں سال قدیم مجسمے آج بھی نہ صرف اصلی حالت میں موجود ہیں بلکہ اپنے بنانے والوں کی مہارت کے شاندار حوالے کے طور پر محفوظ ہیں۔ یو کے اور خاص طور پر لندن میں مجسمہ سازی کا سلسلہ سیکڑوں برس سے جاری ہے اور ہر سال یہاں مختلف مقامات پر نئے مجسموں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے لندن میں قدیم ترین مجسمہ الفریڈ دی گریٹ کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بنانے کا آغاز دوسری صدی عیسوی میں کیا گیا تھا۔ 2.6 میٹر بلند یہ مجسمہ ساؤتھ ایسٹ لندن کے علاقے سدک میں ٹرینٹی چرچ سکوائر میں نصب ہے۔ برطانیہ میں سب سے زیادہ مجسمے ملکہ وکٹوریہ کے ہیں لندن کی سٹیچو گیلری مجسمے بنانے اور مجسموں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے اس گیلری میں 39 مجسمے نصب ہیں جو مختلف فنکاروں کی کاریگری کا شاہکار ہیں۔ برطانیہ کے مجسمہ ساز فنکار اور کمپنیاں اپنے کام کی نفاست اور انفرادیت کی وجہ سے عالمی شہرت کی حامل ہیں۔ دو برس پہلے لندن کے جن 23 مجسموں کو مقبول ترین قرار دیا گیا اُن میں ویسٹ منسٹر برج پر بوڈیکا کا مجسمہ، سینٹ پال کیتھڈرل کے باہر کوئین این کا مجسمہ، الفریڈ دی گریٹ کا مجسمہ، پکاڈلی سرکس میں دی شافٹس بری میموریل فاونٹین، ٹرافالگر سکوائر میں ایڈمرل نیلسن کا مجسمہ، کنزنگٹن گارڈن میں پیٹرپین کا مجسمہ، بکنگھم پیلس کے باہر کوئین وکٹوریہ میموریل، ہائیڈ پارک کارنر میں کرسٹوفر کولمبس کا مجسمہ، لیسٹر سکوائر میں ولیم شیکسپیئر کا مجسمہ، بکنگھم پیلس کے باہر اینجل آف پیس،پارلیمنٹ سکوائر میں ونسٹن چرچل کا مجسمہ، سینٹ جیمز میں فلورنس نائٹ انگیل کا مجسمہ اورکنزنگٹن گارڈنز میں پرنسس ڈیانا کا مجسمہ خاص طور قابل ذکر ہیں۔ انسانی مجسموں کے علاوہ لندن میں گھوڑوں، شیروں اور دیگر مخلوقات کے مجسمے اور شکلپ چر بھی نصب ہیں۔ وسطی لندن کی تاریخی عمارتوں کے مرکزی دروازوں اور ستونوں پر جگہ جگہ پتھر کے چھوٹے بڑے مجسمے عہدِ رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ سکوائر میں نیلسن مینڈیلا اور موہن داس کرم چند گاندھی کے مجسمے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ سنٹرل لندن میں چونکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے اس لئے شہر کے مختلف مصروف مقامات پر مسٹر بین، چارلی چپلن، بیٹ مین، ہیری پورٹر، پیڈنگٹن بیئر، میری پوپنز، لوریل اینڈی ہارڈی، بگزبنی، آسکروالڈ، اگاتھاکرسٹی اور دیگر مشہور شخصیات اور کرداروں کے مجسمے نصب کئے گئے ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی سیکڑوں مجسمے ایسے ہیں جو بالکل بے لباس ہیں اور اُن کی ستر ڈھانپنے کا بھی تردد نہیں کیا گیا اور اِن مجسموں کے نقوش اس طرح بنائے بلکہ ابھارے گئے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہونے لگتا ہے۔ لندن آنے والے بہت سے سیاح ایسے نیوڈ مجسموں پر ایک نظر ڈال کر شرماتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور بہت سے منچلے اِن بتوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے مختلف زاویوں سے تصاویر اور ویڈیوز بنواتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ چند برس پہلے سید مجاہد علی نے ناروے کے دارلحکومت اوسلو میں ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستان، امریکہ اور یورپ سے اُردو کے نامور شاعروں اور شاعرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرے کے بعد اگلے روز ہمیں اوسلو شہر کے مشہور مقامات کی سیر و سیاحت کے لئے لے جایا گیا۔ جن صاحب کو ہمیں شہرگھمانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ ہمیں (VIGELAND PARK) میں لے گئے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکلپ چرپارک ہے جو 80ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے، نارویجن کیپٹل میں آنے والے سیاح سب سے زیادہ دلچسپی اسی پارک کو دیکھنے میں رکھتے ہیں کیونکہ اس پارک میں تقریباً دو سو برہنہ (ننگے) مجسموں کو نمائش کے لئے نصب کیاگیا ہے، مختلف عمر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے اِن مجسموں کو اس مہارت سے تراشا گیا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ مجسمے انسان کی مختلف حالتوں، پوزیشنز اور کیفیتوں کے اظہار کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ اِن مجسموں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ ہر مجسمے کو صرف ایک ہی پتھر سے تراشا گیا ہے یعنی ایک 7 فٹ کے مجسمے میں ماں نے اپنے بچے کو گود میں اُٹھا رکھا ہے اور اِن دونوں کے مجسمے کو ایک ہی پتھر سے بنایا گیا ہے۔ اس پارک کی بنیاد ناروے کے بے مثال مجسمہ ساز (GUSTAV VIGELAND) (11 APRIL 1869 – 12 March 1943) نے رکھی تھی اور یہ تفریحی مقام انہی کے نام سے موسوم ہے۔ ہم جب اس پارک داخل ہوئے تو چند مجسموں کو دیکھنے کے بعد شاعرات کی حیا نے انہیں مزید مجسمے دیکھنے کی اجازت نہ دی اور وہ پارک کے باہر کافی ہاوس میں جا بیٹھیں اور شاعر حضرات کا انتظار کرنے لگیں۔ ننگے مجسموں کے اس پارک کو سیاحوں کی اکثریت اس لئے دیکھنے آتی ہے کہ کھلے آسمان تلے نصب کئے گئے پتھر کے یہ مجسمے آرٹ او فن کا منفرد نمونہ اور ہنر مندی کا بے مثال شاہکار ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں مجسموں، مورتیوں اور بتوں کو پوجنے کی بجائے ایک ہنر اور فن کے اظہار کے لئے تخلیق کیا اور انہیں آرٹ گیلریز اور سیاحوں کے لئے پرکشش مقامات کی زینت بنایا گیا ہے۔ویسے تودنیا بھر میں سب سے مشہور اور پہچانا جانے والا مجسمہ نیویارک کا مجسمہ آزادی ہے جبکہ عہدِ حاضر میں مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے منفرد اور بلند و بالا مجسمے بنانے کو بھی فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کا بلند ترین مجسمہ گجرات (انڈیا) کا سٹیچو آف یونیٹی ہے، دریائے نرمادا کے کنارے والا بھائی پٹیل کا یہ 182 میٹر بلند مجسمہ 2018 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دوسرا بلند ترین مجسمہ چین کے سپرنگ ٹیمپل میں ہے، بدھا کا یہ مجسمہ 128 میٹر اونچا ہے۔ پاکستان اور دیگر کئی مسلمان ممالک میں بت اور مجسمے بنانے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں بت پرستی تو ختم ہو چکی ہے لیکن اس کی جگہ شخصیت پرستی نے لے لی ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے سیاسی، مذہبی اور روحانی قائدین اور رہنماؤں کی اس انداز سے شخصیت پرستی کرتی ہے کہ بت پرستی کرنے والے بھی ششدر اور حیران رہ جاتے ہیں۔ بتوں کی اس لئے بھی پوجا ہوتی ہے کہ وہ خاموش رہتے ہیں، بولتے نہیں ہیں مگر ہمارے لوگ اپنے جن رہنماؤں کی ”پرستش“ کرتے ہیں وہ تو دِن بھر بولتے (بلکہ بکواس کرتے اور نفرتوں کا زہر اگلتے) رہتے ہیں مگر اس کے باوجود عقل و شعور سے عاری اُن کے پیروکار انہیں اپنے حواس اور کندھوں پر سوار کئے رکھتے ہیں۔ شخصیت پرستی، بت پرستی سے بھی زیادہ مہلک رجحان ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فروغ پا رہا ہے جس کی تفصیل میں جانے کا متحمل میرا یہ کالم نہیں ہو سکتا۔ اس تحریر میں لندن کے مجسموں کا ذکر مقصود ہے یہاں صرف پتھر اور دھات کے مجسمے ہی نہیں بنائے جاتے بلکہ موم کے مجسموں کے لئے بھی اس شہر کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ لندن کی بیکر سٹریٹ پر موم کے مجسموں کا ایک بہت شاندار عجائب گھر ہے جو میڈم تساؤ میوزیم کہلاتا ہے۔ اس عجائب گھر کی بنیاد 1835 میں یعنی 188 سال پہلے رکھی گئی اور اس کی بانی موم کے مجسمے بنانے والی ایک فرانسیسی خاتون میری تساؤ(دسمبر 1761-اپریل 1850) تھی۔ یہ خاتوں فرانس چھوڑ کر لندن کیوں آئی؟اور انقلابِ فرانس کے دوران اس پر کیا گزری؟ یہ الگ داستان ہے۔ میڈم تساؤمیوزیم اِس وقت لندن آنے والے سیاحوں کے لئے ایک ایسی پرکشش جگہ ہے جس کو دیکھے بغیر وہ اس شہر کی سیاحت کو نامکمل سمجھتے ہیں میں بھی گزشتہ چند برسوں میں کئی بار اس عجائب گھر کی سیر کر چکا ہوں اور ہر بار یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے نئے نئے مجسموں اور مختلف طرح کے شوز کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ میں آخری بار پچھلے برس موسم گرما میں میڈم تساؤ میوزیم کو دیکھنے گیا تھا۔ بہاول پور سے میرے عزیز دوست محمد حنیف السعید گارمنٹس والے لندن آئے ہوئے تھے، وحید احمد اور صہیب بھی میرے ہمراہ تھے، اس عجائب گھر کو دیکھنے کے لئے پورادن درکار ہوتا ہے کیونکہ یہاں دنیا بھر میں مشہور شخصیات کے 150 سے زیادہ مومی مجسمے تین منزلوں پر نمائش کے لئے سجائے گئے ہیں اور یہ مجسمے اس قدر عمدہ طریقے سے بنائے گئے ہیں کہ اِن پر اصل ہونے کا گمان ہوتا ہے اور ہر سال 25لاکھ سے زیادہ لوگ ٹکٹ خرید کر اس میوزیم کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور دیکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ پیسے وصول ہو گئے۔ اس میوزیم میں جن مشہور شخصیات میں شاہ رخ خان، ایشوریا رائے، سلمان خان، امیتابھ بچن، نریندر مودی، سچن تندولکر، ہرتیک روشن اور کرینہ کپور کے علاوہ اور بہت سے نامور لوگوں کے مجسمے یہاں نصب ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے علاوہ یہاں آج تک کسی پاکستانی شخصیت کا مجسمہ بنایا اور رکھا نہیں گیا ویسے بھی ہماری قوم مجسمہ سازی کے خلاف ہے وہ مجسمے یا بت بنانے سے زیادہ انہیں توڑ کر خوش ہوتی ہے جیسا کہ افغانستان (بامیان) میں طالبان اور مجاہدین نے بدھا کے دو تاریخی مجسموں (جو کہ 55 میٹر اور 37میٹر اونچے تھے) کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود نیست و نابود کر کے دم لیا۔

٭٭٭