میں یہی سمجھتا تھا کہ اُن میں طلاق کی بڑی وجہ شادی کے 8سال بعد تک اولاد سے محرومی ہے۔ سجاد تقریباً 18سال پہلے مختلف یورپی ممالک سے دھکے کھاتا ہوا لندن پہنچا تھا۔ یہاں پہنچ کر اُسے ایک جاننے والے کی مدد سے لیدر گارمنٹس کی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اُس نے دِن رات محنت کر کے سب سے پہلے وہ قرض اُتارے جو وہ مختلف لوگوں سے لے کر برطانیہ پہنچا تھا۔ قرض چکانے کے بعد اس کے گھر کی بدحالی دور ہونے لگی۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا لکھایا اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ پاکستان بھیجتا رہا۔ اسی دوران اس کے والد کا انتقال ہو گیا مگر وہ امیگریشن کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان نہ جا سکا۔ دو بڑی بہنوں کی شادی پر بھی اس کے لئے وطن واپس لوٹنا ممکن نہیں تھالیکن اس نے شادی کے اخراجات کے لئے خطیر رقم پاکستان بھیج دی۔ سجاد کی والدہ کو اس کی شادی کا بڑا چاؤ تھا لیکن اس کے لئے پاکستان سے دلہن کو بیاہ کر لندن لانا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی والدہ کو بتا دیا کہ وہ یوکے میں ہی شادی کرے گا۔ اس کی فیکٹری میں نوجوان شفٹ انچارج جینیفر(جینی)کو سجاد میں بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اس کی محنت اور اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت کو پسند کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ دلچسپی دوستی میں بدل گئی اور پھر دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ شادی کے بعد دونوں ایک کرائے کے گھر میں رہنے لگے اور اُن کی زندگی میں آہستہ آہستہ ترتیب اور سکون آ گیا۔ جینی کی صحت کے کچھ مسائل کی وجہ سے اُن کے گھر میں نئے فرد کا اضافہ نہ ہو سکا لیکن سجاد کو اس کا کوئی ملال نہیں تھا۔ جینی بار بار سجاد سے اصرار کرتی تھی کہ وہ کرائے کے گھر میں رہنے کی بجائے کچھ رقم جمع کر کے مارگیج پر اپنا گھر لے لیں۔ سجاد جو کچھ کماتا تھا اس کا بڑا حصہ وہ پاکستان بھیج دیتا تھا جس سے اس کی بیوہ ماں اور تین بے روزگار بھائیوں کا گزارہ ہوتا تھا۔ جینی کئی بار سجاد کو اپنی محنت کی کمائی پاکستان بھیجنے سے منع کر چکی تھی جس کی وجہ سے وہ چھپ چھپ کر ہنڈی کے ذریعے اپنی کمائی پاکستان بھیجنے لگا۔ اس معاملے پر دونوں میں ہر ہفتے تکرار ہوتی۔ جینی کہتی کہ اگر تمہاری ماں بوڑھی ہے تو وہ اپنی پنشن پر گزارہ کرے اور بھائی کوئی کام کاج نہیں کرتے تو بے روزگاری الاؤنس سے اپنا کام چلائیں۔ تمہیں اُن کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سجاد ہر بار بحث مباحثے اور تکرار کے بعد اُسے یہ بتاتا کہ میری والدہ کوئی سرکاری ملازمہ نہیں بلکہ خاتون خانہ ہیں اور میرے والد ایک دہاڑی دار مزدور تھے۔ اس لئے انہیں کسی قسم کی کوئی پنشن نہیں ملتی۔ میرے بھائی پڑھنے لکھنے کے باوجود کسی ملازمت یا نوکری سے محروم ہیں اور انہیں حکومت کسی قسم کا بے روزگاری الاؤنس نہیں دیتی۔ جینیفر کو سجاد کی ان باتوں کا اعتبار نہ آتا وہ یہ سمجھتی بلکہ اس کا یقین تھا کہ پنشن اور بے روزگاری الاؤنس کا جو نظام برطانیہ میں رائج ہے پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس لئے وہ سجاد کی باتوں کو غلط بیانی قرار دیتی۔ رفتہ رفتہ یہ مسئلہ بحث اور تکرار سے لڑائی جھگڑے تک پہنچ گیا اور پھر دونوں نے علیحدگی اور بالآخر طلاق کا فیصلہ کر لیا۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں ہزاروں پاکستانی اور ایشیائی ایسے ہیں جنہوں نے انگریزوں (گورے گوریوں) سے شادیاں کیں لیکن اُن میں سے اکثر شادیاں تہذیبوں اور مذہب کے اختلاف اور معاشرتی بدگمانیوں کی وجہ سے طلاق اور علیحدگی پر منتج ہوئیں۔ جس طرح انگریز لوگ چاہنے کے باوجود بھی پاکستانیوں اور ایشیائی لوگوں کے سماجی معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اسی طرح ہمارے لوگوں کے لئے انگریزوں کے بہت سے معاشرتی رویوں اور ترجیحات کو سمجھنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہوتا ہے۔ انگریزوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک برطانیہ کی طرح فلاحی ریاست ہوں گے جہاں ہر بزرگ کو پنشن اور ہر بے روزگار کو الاؤنس ملتا ہو گا۔ معذوروں کو خصوصی مالی مدد اور مراعات ملتی ہوں گی۔ علاج معالجے اور تعلیم کی سہولت ہر ایک کے لئے مفت اور حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ بے خبر اور لاعلم انگریزوں کو کیا معلوم کہ تیسری دنیا میں عام لوگوں کے مسائل کی حقیقت کیا ہے؟
مجھ تہی دست کی پنشن ہے نہ بیٹا کوئی
ورنہ یہ عمر کمانے کی نہیں ہوتی ہے
(ناصر ملک)
برطانیہ میں ریٹائرڈ اور بزرگوں کا جس قدر خیال رکھا جاتا ہے پاکستان یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی پونے سات کروڑ آبادی میں ایک کروڑ 26لاکھ لوگ پنشنرز اور 13لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہیں اور حکومت اِن سب کی مالی اعانت کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ برطانوی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی معذوری میں مبتلا ہیں اور حکومت اِن لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے علاؤہ اِن کو ہر طرح کی سہولت بھی مہیا کرتی ہے جبکہ اِن کے کیئررز یعنی معذوروں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو بھی تنخواہ اور سہولتیں دیتی ہے۔ برطانوی حکومت ہر سال تقریباً 341بلین پاؤنڈ کی خطیر رقم اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے اور یہ صرف اسی لئے ممکن ہوتا ہے کہ برطانیہ میں ملازمت پیشہ اور کاروباری لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ یوکے میں کوئی سرمایہ دار، لینڈ لارڈ اور کاروبار ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں۔ جس ملک میں سرمایہ دار لوگ ٹیکس دینے کی بجائے بھتہ اور رشوت دینے کو اپنی ترجیح بنا لیں اور سیاستدان ہر معاملے میں کرپشن کو ناگزیر سمجھیں وہاں ریاست اپنے بے سہارا اور مجبور عوام کے لئے ماں کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ برطانیہ میں ایک ادارہ ڈی ڈبلیو پی یعنی ڈپارٹمنٹ آف ورک لینڈ پنشن ہے جو عوامی فلاح و بہبود اور پنشن وغیرہ کے معاملات میں اپنے لوگوں کو مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی بیشتر سروسز آن لائن ہیں۔ ڈاک اور فون کے ذریعے بھی اس محکمے سے رابطے کی سہولت میسر ہے۔ برطانیہ میں پنشن ایکٹ 1908ء میں بنایا گیا جسے 1909ء سے نافذ العمل کیا گیا۔ اِن دِنوں یوکے میں ریٹائرمنٹ کی عمر (65سے 67سال) کو پہنچنے والوں کو تقریباً ڈیڑھ سو پاؤنڈ سے دو سو پاؤنڈ کی رقم پنشن کے طور پر ہر ہفتے ملتی ہے اور پنشنرز کو اس رقم کے حصول کے لئے کسی دفتر یا محکمے کا چکر نہیں لگانا پڑتا بلکہ یہ پنشن ہر ہفتے باقاعدگی سے ان کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ پنشن ہر اس شخص کو ملتی ہے subject to national insurance contributions جو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائے خواہ اس نے زندگی میں کوئی ملازمت یا کاروبار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ برطانیہ اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنے لوگوں کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ہر فرد کا ڈیجیٹل ریکارڈ نیشنل ڈیٹا میں محفوظ ہے۔ ڈاکٹرز، ریونیواینڈ کسٹمز، بینک، ہوم آفس، پولیس اور دیگر کئی سرکاری اور تجارتی اداروں کو اس ڈیٹا میں محفوظ معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ مثلاً نیشنل ہیلتھ سروس کا محکمہ یا کوئی ڈاکٹر اس ڈیٹا میں محفوظ کسی بھی شخص کی صحت کے متعلق معلومات یا اس کی میڈیکل ہسٹری کے بارے میں جاننے کے لئے اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی فرد کے مجرمانہ ریکارڈ کی پڑتال کے لئے اس ڈیٹا کو استعمال میں لا سکتے ہیں۔ میں نے ایک بار بہاول پور سے لندن آنے والے ایک بہت مشہور اور مصروف ڈاکٹر سے استفسار کیا کہ آپ کو اپنے مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کے بارے میں ایسا کوئی ڈیٹا یا معلومات کیوں میسر نہیں ہیں جس سے آپ کو علاج معالجے میں آسانی میسر آ جائے۔ ڈاکٹر صاحب میری بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ یہ کام نادرا یعنی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے کرنے کا ہے اور بڑی سہولت سے ہو سکتا ہے۔ مگر یہ کام نادرا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ادارہ نہیں چاہتا کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے سرکاری ریکارڈ پر اس کی اجارہ داری ختم ہو۔ حالانکہ سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے لئے کچھ مریضوں کی میڈیکل ہسٹری نادرا کے سسٹم میں محفوظ کرنے سے کسی کو کوئی نقصان نہیں بلکہ عام لوگوں کا بھلا ہو گا۔ معلوم نہیں ہمارے اربابِ اختیار جدید ٹیکنالوجی کو کب تک لوگوں کی بہبود کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔ اِن دِنوں پوری دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ڈیجیٹل اور الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام انتخابی عمل کے لئے استعمال ہو رہا ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب تک انگوٹھے پر انمٹ سیاہی لگا کر ووٹ ڈلوایا جاتا ہے۔ حالانکہ فنگر پرنٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ اس ذریعے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے اور نہ ہی ووٹوں کے اعداد وشمار میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ ہم دیانتداری کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن جہاں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہماری دیانتداری کا بھانڈا پھوٹتا ہو ہم وہاں اس کو استعمال میں لانے سے ہر ممکن گریز کرتے ہیں۔
اُن مکانوں پر خدا اپنا کرم فرمائے
جن کو خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں
٭٭٭٭