پاکستانی معاشرے میں بالغ جنسی فلمیں اور جنسی کھلونے گھروں میں رکھنا اور ان سے لطف اندوز ہونا قانونی طور پر جرم تو ہے ہی لیکن اگر ایسا کرنے والے کے والدین کو پتا چل جائے تو وہ نہ صرف اس مواد کو تلف کرسکتے ہیں بلکہ حسب طاقت جوتے👞 بھی رسید کرسکتے ہیں😀، مزید وہ شخص کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کرسکتا، لیکن مغربی ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔
امریکی ریاست مشی گن میں ایک 42 سالہ شخص اپنی پارٹنر سے علیحدگی پر 2016 میں 1600 پورن ڈی وی ڈیز سے بھرے 12 ڈبوں اور سیکس ٹوائز سے بھرے دو ڈبوں کیساتھ اپنے والدین کے گھر منتقل ہوگیا تھا، موصوف دس مہینے اپنے والدین کے گھر رہا اور بعد میں امریکی ریاست انڈیانا چلا گیا، لیکن اپنا پورن کا خزانہ اور مصنوعی جنسی کھلونوں کے ڈبے اپنے والدین کے گھر ہی چھوڑ گیا۔ کچھ عرصے بعد گھر کی صفائی کے دوران جب اسکے والد کو اس لعنتی مواد کے بارے میں علم ہوا تو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اس سارے مواد کو تلف کردیا۔ ایک سال بعد جب اس شخص نے ای میل کے ذریعے اپنے والد سے اس جنسی مواد کو انڈیانا بھجوانے کیلئے بات کی تو اسکے والد نے اسے بتایا کہ انہوں نے وہ مواد تلف کردیا تھا اور مزید یہ کہ انہوں نے ایسا کر کے اس پر احسان کیا ہے تاکہ وہ اس جنسی لت سے نکل آئے۔
اپنے جنسی خزانے کے ضائع ہونے پر نہ صرف وہ شخص غصے میں آگیا بلکہ اس نے اپنے ہی والدین پر 25000 امریکی ڈالر کے ہرجانے کا دعوی بھی کر دیا، جبکہ جج نے بھی فیصلہ اسی شخص کے حق میں دیتے ہوئے لکھا کہ مالک مکان کی حیثیت سے بھی والدین کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ کسی کی ملکیتی اشیاء کو نقصان پہنچاتے، لہذا والدین ہرجانے کی رقم اس شخص کو جلد ازجلد ادا کریں😢۔ اب بچارے والدین اپنا سر پکڑ کر بیٹھے یہ سوچ رہے ہونگے کہ ایسے بیٹے سے تو بہتر تھا وہ بے اولاد ہی رہتے😢، اسکے پیدا ہونے پر خوشیاں منائیں، اسے پال پوس کر بڑا کیا اور اب وہیں بیٹا فحش مواد کے پیچھے اپنے ہی والدین کو عدالتوں میں گھسیٹ رہا ہے😢😢۔