قبلہ اول اورفلسطین کے مظلوم مسلمانوں پراسرائیلی جارحیت ،مظالم اوردہشتگردی پروزیراعظم عمران خان ،صدرمملکت عارف علوی اوردیگرمسلم حکمرانوں کی جانب سے رسمی اظہارمذمت کودیکھ کرہمیں گائوں کے چوہدری صاحب کاوہ واقعہ یادآنے لگتاہے۔کہاجاتاہے کہ گائوں کاچوہدری کہیں ایک بار مسجدمیں جھاڑولگارہاتھاکہ اسی اثناء میں مسجدکے امام صاحب تشریف لائے ۔چوہدری صاحب کومسجدکی صفائی کرتے ہوئے دیکھاتوفرمایا۔حضرت یہ میں کیادیکھ رہاہوں۔۔؟چوہدری کہنے لگا۔امام صاحب آپ ہی نے توبتایاتھاکہ مسجدکی صفائی کابڑاثواب ہے توسوچاکہ میں کیوں اس سے محروم رہوں۔امام صاحب آگے بڑھے۔موصوف کے ہاتھ سے جھاڑولیتے ہوئے فرمانے لگے۔چوہدری صاحب۔یہ ثواب ہمارے جیسے کسی غریب کے لئے چھوڑدیں۔اللہ نے آپ کومال ودولت دیاہے آپ کاکام مسجدکی صفائی نہیں بلکہ کسی نئی مسجداورمکتب کی تعمیرورکھوالی ہے۔
اگرآپ بھی غریبوں کی طرح مسجدومکتب کی صرف صفائی کریں گے توپھرمساجد ومکاتب کی تعمیراوررکھوالی کون کرے گا۔۔؟بدقسمت فلسطینیوں پراس وقت اسرائیلی درندوں کے بڑھتے مظالم پرمسلم حکمرانوں کے رسمی بیانات ،تشویش اورمذمت کودیکھ کرصرف ہم نہیں بلکہ دنیابھرکے مسلمان یہ سوچ رہے ہیں کہ ،،یہ ہم کیادیکھ رہے ہیں،،مسجدکے اس امام صاحب کی طرح اگرہم مسلم ممالک کے ان بڑے چوہدریوں سے پوچھنے کی گستاخی اورجسارت کرسکتے توواللہ ہم بھی انتہائی عزت واحترام کے ساتھ اپنے ان چوہدریوں کے ہاتھوں سے کشکول اورجھاڑولیکران سے ضرورکہتے کہ،،بادشاہ گان سلامت،،صبح صبح اٹھ کرشدیدمذمت والایہ ثواب آپ ہمارے جیسے غریبوں کے لئے چھوڑدیں ۔اللہ نے آپ کوحکمرانی،طاقت اوربادشاہت دی ہے آپ کاکام مذمت،تشویش،ٹوئٹ اورزبانی جمع خرچ یکجہتی کااظہارکرنانہیں بلکہ مظلوم مسلمانوں پراٹھنے والے ہاتھوں کوجڑوں سے کاٹنا،ان کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھوں کوجڑسے نکالنااوران کودکھ،اذیت اورتکلیف دینے کے لئے آگے بڑھنے والے پیروں کے سوسوٹکڑے کرناہے۔مسلم دنیاکے حکمران،نگہبان اورحاکم ہوکراگرآپ نے بھی ہم غریبوں کی طرح بھارتی ،اسرائیلی اورعالم کفرکے مظالم پرصرف تشویش،مذمت اورایک ٹوئٹ ہی کرنی ہے توپھرمظلوم مسلمانوں کی حفاظت اوردفاع کافریضہ کون سرانجام دے گا۔۔؟وطن عزیزسمیت اسلامی دنیاکے بادشاہ گان سلامت آپ کی اسی رسمی مذمت،الفاظی تشویش ،وقتی یکجہتی اورفیس بکی وٹوئٹر ی ٹوئٹس نے کشمیر،برما،عراق،افغانستان،شام،لیبیااورفلسطین کے مسلمانوں کوآج اس مقام تک پہنچادیاہے۔مسلم دنیاکے حکمران وبادشاہ ہوکرجھاڑواورکشکول ہاتھوں میں اٹھائے بھکاریوں والے کام اگرآپ نہ کرتے توآج مسلم دنیااورمسلمانوں ملکوں کے حالات بھی مختلف بہت مختلف ہوتے۔مگرافسوس اپنی عیاشیوں ،شان وشوکت اورحکمرانی کے لئے آپ نے ہمیشہ وہ کام کیاجوہم جیسے غریبوں یاپھرکشکول گلے میں لٹکائے گلی محلے میں پھرنے وگھومنے والے بھکاریوں کوکرنے چاہئیے تھے۔ستاون اسلامی ممالک،ایمان کی طاقت ودولت سے سرشاردنیاکی بہترین افواج ،ایٹمی طاقت،صلاحیت اورنعمت کے باوجودکشمیرسے لیکرفلسطین اورشام سے لیکرافغانستان تک مسلمان روزعالم کفرکی بربریت اور جارحیت کا نشانہ بنے یہ ہمارے ان نام نہادمسلم حکمرانوں اوربادشاہوں کے منہ پرطمانچہ اوران کے لئے چلوبھرپانی میں ڈوب کرمرنے کامقام نہیں تواورکیاہے۔۔؟
اسرائیلی درندوں نے اس وقت ارض مقدس پرظلم ،جارحیت اوربربریت کے تمام ریکارڈتوڑدیئے ہیں۔مسلمانوں کاقبلہ اول اس وقت آگ اورخون کی لپیٹ میں ہے ۔روزمعصوم اورنہتے فلسطینیوں کومولی گاجرکی طرح کاٹاجارہاہے مگرہمارے مسلم حکمران الفاظ کی ہیراپھیری اور روایتی مذمت وعادت سے آگے نہیں نکل رہے۔امریکہ سمیت عالم کفرکے تمام چیلے اورایجنٹ اس بدترین دہشتگردی اورناقابل برداشت مظالم کے باوجوداس وقت اسرائیل کوسپورٹ کررہے ہیں مگردوسری طرف ستاون اسلامی ممالک کی یہ حالت ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے خون سے قبلہ اول کی سرخی پربھی کوئی مسلم حکمران محمدبن قاسم بن کرسامنے نہیں آرہا۔وزیراعظم عمران خان اوردیگرمسلم حکمرانوں کی جانب سے اسرائیلی مظالم کی لفظی مذمت اورمظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کے یہ ٹوئٹس والاکام توکوئی بھی کرسکتاہے۔بغیرکسی طاقت،مال ودولت اورحکمرانی کے اس ملک کے 22کروڑعوام کیا73سال سے بھارتی مظالم کی مذمت نہیں کررہے۔۔؟ آپ تاریخ اٹھاکردیکھیں ۔اس ملک کے غریبوں کی جانب سے 73سال سے کشمیریوں سے یکجہتی کانہ صرف برملااظہارہورہاہے بلکہ اس مقصدکے لئے جلسے ،جلوس،مظاہرے اورہڑتال بھی ہورہے ہیں ۔مذمت،تشویش اوریکجہتی کے الفاظ سے اگرعالم کفرکی جانب سے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم ختم یامظلوم مسلمانوں کوآزادی مل سکتی ہے توپھرتمام مسلم حکمران ستوپی کراسی طرح سوئے رہیں کیونکہ مذمت،تشویش اوریکجہتی کااس طرح کھل کراظہارہم غریب عوام ورعایاسے بہتراندازمیں اورکوئی نہیں کرسکتا۔
کوئی وس اوربس نہ چلنے کی وجہ سے 73سال سے ہم کشمیریوںکے لئے بھی جلسے ،جلوس،مظاہرے اورہڑتال کرکے آنسوبہارہے ہیں اب کشمیرکے ساتھ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لئے بھی جلسے ،جلوس،مظاہرے اورہڑتال کرکے اپنے دل بہلاتے رہیں گے۔خالی ہاتھ ہونے کی وجہ سے اپنوں کی یادمیں محض آنسوبہانا،رونا،چیخنا،چلانااورتڑپنایہ ہماراکام ہے ۔ہم غریبوں نے پہلے کشمیری بہن بھائیوں ومائوں کے لئے بھی یہ کام ایمانداری اوربہادری کے ساتھ کیااوراب مظلوم فلسطینیوں کے لئے بھی انشاء اللہ اسی ایمانداری اوربہادری کے ساتھ کریں گے۔یوم فلسطین منانے سے اگراسرائیلی مظالم رک سکتے ہیں توواللہ ہم اس ملک میں ہریوم کویوم فلسطین منائیں گے۔کشمیری عوام کیلئے ہم آدھاگھنٹہ کھڑے ہوتے تھے مسلم حکمران گواہ رہیں اب فلسطینیوں کے لئے ہم دودوگھنٹے چوکوں اورچوراہوں پرکھڑے ہونگے۔لیکن سوال صرف یہ ہے کہ کیامحض ہمارے اس احتجاج،جلسے ،جلوسوں، مظاہروں، ہڑتالوں اور زبانی مذمتوں سے قبلہ اول اسرائیل کے شکنجے سے آزادہو گا۔۔؟نہیں ہرگزنہیں۔
احتجاج، جلسے، جلوسوں،مظاہروں،ہڑتالوںاورمذمتوں سے اگرکسی کوآزادی ملتی توکشمیری عوام کب کے بھارتی قبضے ،جارحیت اوربربریت سے آزاد ہوتے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں کوآزادی عالم کفر کے مظالم کی محض مذمت سے نہیں بلکہ اس کی بھرپورمرمت سے ہی ملے گی۔کشمیرپربھارتی مظالم کی مذمت مذمت میں ہم نے 73سال گنوادیئے۔اب قبلہ اول پراسرائیلی مظالم کی بھی محض مذمت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کشمیرکی آزادی کے لئے بھارت اورفلسطین کواسرائیلی قبضے سے چھڑانے کے لئے اسرائیل کی بھرپورمرمت ضروری بہت ضروری ہے۔مسلم حکمرانوں کااس وقت یہ فرض بھی ہے اوران پرقرض بھی کہ وہ مظلوم مسلمانوں کوعالم کفرکے مظالم سے بچانے کے لئے محمدبن قاسم بن کرسامنے آئیں۔تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جوصلاح الدین ایوبی اوٹیپوسلطان بن کرمسلمانوں پرہاتھ اٹھانے والوں کی مرمت کرتے ہیں۔کشمیرسے فلسطین،عراق سے افغانستان اورلیبیاسے شام وبرماتک یہ مسلمان آخرکب تک عالم کفرکے مظالم سہتے رہیں گے۔۔؟مسلم حکمرانوں کی زبانی جمع خرچ اورمذمتی ٹوئٹس کی بھاری قیمت آخرکب تک کشمیراورفلسطین کے مظلوم مسلمان اپنی گردنیں کٹوااورخون بہاکردیتے رہیں گے۔۔؟وقت آگیاہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت تمام مسلم حکمران دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرامت مسلمہ کے لئے محمدبن قاسم،صلاح الدین ایوبی اورٹیپوسلطان بنیں۔اسرائیل اوربھارت کیخلاف احتجاج،جلسے ،جلوس،مظاہروں،ہڑتالوںاورمذمتی ٹوئٹس کیلئے ہم غریب لوگ ہیں یہ کام ہم کرلیں گے لیکن خدارامسلم حکمران بھی اب غفلت کی نیندسے بیدارہوکروہ کام کریں جو قدرت کی طرف سے ان پرفرض بھی ہے اور قرض بھی۔