پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد امریکہ اُن چند ممالک میں سے تھا جس نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات شروع کیے۔ 20 اکتوبر 1947 کو شروع ہونے والے پاک امریکہ تعلقات آج تک یہ واضح نہ کر سکے کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے یا دشمن! تاریخ کا مطالعہ کریں تو پاک امریکا تعلقات “Love and hate relationship” پر مبنی رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ ابتدائی سالوں میں کچھ دو کچھ لو کے اصول پر عمل پیرا رہے۔ امریکہ کو جنوبی ایشیا پر اجارہ داری اور کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کےلئے کسی اتحادی ملک کی ضرورت تھی جو اسے پاکستان کی صورت میں میسر آیا تو دوسری طرف پاکستان کو بھی اپنی معاشی حالت اور قومی سلامتی کے معاملے پر انڈیا سے تشویش تھی جس کی وجہ سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدے بھی ہوۓ اور امریکا نے پاکستان کو مالی امداد بھی فراہم کی۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بڑھتی گرمجوشی اُس وقت کم ہونا شروع ہوگئی جب 1965 کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے پاکستان کا ساتھ دینےسے انکار کیا اور بڑھتے پاک چین تعلقات کے تناظر میں پاکستان پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں امریکا “Carrot and stick approach” پر عمل پیرا رہا اور بھٹو دور میں شروع ہونے والے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ردعمل میں معاشی اور دفاعی امداد کی فراہمی معطل کر دی۔
دسمبر 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکا اور پاکستان ایک بار پھر بغل گیر ہوئے اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے سوویت افغان جنگ میں مل کر سوویت یونین کے خلاف کردار ادا کیا۔ سوویت فوجیں 1989 میں افغانستان سے نکلیں تو امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کی امداد روک دی۔ ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملوں کے بعد امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی تو جنرل مشرف نے وار آن ٹیرر کا حصہ بن امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے فراہم کیے اور پاکستان کو دہشتگردی کی لہر میں جھونک دیا- 2011 کے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوئے۔ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری بڑھنے لگی تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ امریکا کو افغانستان سے انخلاء کیلئے پاکستان کی مدد درکار تھی تو ایک بار پھر پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا اور نیٹو افواج کا انخلاء ممکن بنایا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو امریکا پاکستان کے معاملے میں ڈنگ ٹپاؤ( اپنا کام نکالو) کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اپنے ذاتی مفادات کی نہج پر ڈھالتا آیا ہے۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات امریکن مفادات سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ جہاں امریکا کے مفادات ختم ہوتے ہیں وہی دونوں ممالک کے تعلقات ہچکولے کھانے لگتے ہیں۔ تاریخ بہترین استاد ہے۔ پاکستان کو بھی تاریخ سے سیکھتے ہوئے امریکا کے ذاتی مفادات کی بجائے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ دنیا کی بڑی سپر پاور ہونے کے ناطے امریکا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں اور دُشمنوں میں فرق واضح کرے اور قومی سلامتی اور قومی مفاد کے مطابق پالیسی مرتب کرے۔
حسن اقبال نمل یورنیورسٹی اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں پاکستان کے سیاسی حالات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔