200

پاکستان ڈوب رہا ہے

نگوڑی سیاست کہیں ٹکنے کا نام ہی نہیں لے رہی روز نیا چن چڑھا ہوتا ہے لوگ سیاسی کھیل تماشوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں کسی کو احساس تک نہیں کہ ملک میں قیامت صغری برپا ہے پانی کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے چونکہ اسلام آباد میں سیلاب نہیں آیا لہذا پورے ملک میں شانتی ہے ملک کے طول وعرض میں پانی تباہی مچا رہا ہے اس وقت تک پونے چار سو کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں لوگوں کا قیمتی مال ومتاع اور مویشی پانی میں بہہ چکے ہزاروں کلو میٹر سڑکیں تباہ ہو چکیں رابطہ پل پانی میں بہہ چکے کئی علاقوں میں بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا بے یارو مددگار لوگ کھلے آسمان تلے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں افواج پاکستان اور این ڈی ایم اے کے علاوہ کسی کے کان تک جوں نہیں رینکی چونکہ ملک میں سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں ایسے لگتا ہے جیسے معاشرہ بے حس ہوتا جا رہا ہے میڈیا بھی سیاسی قلا بازیاں دکھانے تک محدود ہے اخبارات ٹی وی چینلز سیاسی بیان بازی سے بھرے ہوئے ہیں لگتا ہے کہ ساری قوم سیاسی بے راہ روی میں بہہ چکی ہے کسی کو احساس ہی نہیں کہ ملک کی کتنی بڑی آبادی کس کرب سے گزر رہی ہے۔

سیلابی ریلوں سے ملک کے 103 اضلاع کے 10 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں بلوچستان کے 27 اضلاع شدید متاثر ہیں جہاں بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا ہے بلوچستان میں 106 سندھ میں 90 پنجاب میں 76 خیبر پختون خواہ میں 69 گلگت بلتستان میں 8 اور کشمیر میں 7افراد جان بحق ہونے ہیں پچھلے ایک دو سال سے پاکستان میں عجیب وغریب موسمی تغیرات دیکھنے میں آرہے ہیں اس سال گلگت میں گلیشیر پھٹنے سے بڑی تباہی آئی شاہراہ قراقرم پر سڑک اور پل تنکوں کی طرح بہہ گئے وادی نیلم میں بادل پھٹنے سے 5سیاح دوست جن کا تعلق نارووال پنجاب سے تھا اور پانچوں طالبعلم تھے پانی میں بہہ گئے جن میں سے تین کی ابھی تک لاشیں بھی نہیں مل سکیں کراچی سے حیدرآباد جانے والی فیملی کی گاڑی پانی میں بہہ گئی جس میں سات افراد سوار تھے بلوچستان کے قلعہ عبداللہ میں ٹریکٹر ٹرالی سیلابی ریلے میں آکر ڈوب جانے سے 15 افراد جاں بحق ہوگئے اسی طرح بلوچستان کے بعض علاقوں میں بھی بادل پھٹنے کے واقعات دیکھے گئے اس قسم کے شدید تغیرات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے یہ معمولی واقعات نہیں ہیں سائنسدانوں کا خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان کے خلاف موسمی ہتھیار تو نہیں آزمائے جا رہے اس پر تحقیق ہونی چاہیے پاکستانی یونیورسٹیوں سائنسی وتحقیقی اداروں کو اس پر ریسرچ کرنی چاہیے کہ ان شدید بارشوں کی وجوہات کیا تھیں پاکستانی علاقوں میں ہی کیوں بادل پھٹے مستقبل میں ایسے حالات سے کیسے بچا جا سکتا ہے پاکستان کو کیا اقدامات کرنے چاہیں کیا پاکستان کے موسموں سے کوئی چھیڑ خانی کر رہا ہے کیا پاکستان میں موسموں پرکوئی تجربات کیے جا رہے ہیں خاص کر گلگت میں گلیشیر کے پھٹنے کا واقعہ غیر معمولی ہے کراچی میں ماضی میں کبھی بھی اس طرح کی بارشیں کبھی نہیں ہوئیں وہاں بھی غیر معمولی بارشیں جنھوں نے زندگی تہس نہس کر دی اور کراچی کئی ماہ سےندی کا منظر پیش کر رہا ہے وقفے وقفے سے ہٹ ہٹ کر خوفناک بارشیں ہو رہی ہیں۔

یہی حال بلوچستان کا ہے وہاں بھی ایسی بارشیں پہلے کبھی نہیں دیکھیں جنوبی پنجاب راجن پور ڈیرہ غازی خان اور کوہ سلیمان کے علاقے میں بھی غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں قبل ازیں دریائے سندھ چناب،راوی جہلم میں طغیانی کی وجہ سے سیلاب آتے تھے اس بار دریاوں کی صورتحال معمول پر رہی ہے دریائے سندھ میں چند ایک مقامات پر سیلابی کیفیت تھی یا ہندوستان نے بڑے عرصے کے بعد دریائے چناب میں بڑے پیمانے پر پانی چھوڑا جس سے خشک ہوتا ہوا دریا لبا لب ہو گیا اور چند علاقوں میں اس کے پانی سے سیلاب آیا دریائے راوی جو کہ بالکل خشک ہو چکا تھا اس میں پانی دیکھ کر لوگوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا لیکن دریائے راوی کے پانی سے کہیں بھی سیلابی کیفیت نہیں تھی آجر کار یہ غیر معمولی پانی کہاں سے آیا یہ تحقیق طلب بات ہے ویسے پاکستان عجیب ملک ہے اگر تھوڑی سی گرمی زیادہ پڑ جائے تو ہم جھلس کر مر جاتے ہیں اور قحط سالی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اگر بارشیں زیادہ ہو جائیں تو ہم ڈوب کر مر جاتے ہیں ناں ہو تو خشک سالی سے مر جاتے سردی زیادہ پڑ جائے تو ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں دنیا کے ممالک کو سخت موسموں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن انھوں نے اپنی تحقیق سے ان موسموں اور آفات کے نقصانات سے بچنے کیلئے اقدامات کیے اور اب یا تو وہ مکمل محفوظ ہیں یا کم سے کم نقصان ہوتا ہے ہم سے روٹین کا بارشی پانی نہیں سنبھالا جاتا ہم سے تو پلکو نالہ ڈیک نالہ اور نالہ لئی ہی نہیں سنبھالا جاتا بلوچستان میں بارشی پانی جمع کرنے کےلیے بنائے جانے والے ڈیم بھی اتنے ناقص تھے کہ وہ بھی پانی میں بہہ گئے۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی ایسے معاملات پر کبھی توجہ نہیں دی انھوں نے سیاسی معاملات کو ہمیشہ سر فہرست رکھا جس کی وجہ سے پاکستان کی سماجی تنظیموں نے بھی بحالی کے کاموں میں زیادہ توجہ نہیں دی لوگوں نے ڈوبتے پاکستان کو بچانے کی بجائے سیاسی موشگافیوں پر زیادہ دھیان دیا آج بھی لاکھوں لوگ مدد کے منتظر ہیں ہماری سماجی تنظیموں اور صاحب حیثیت لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں کچھ تنظیموں نے اپنے طور پر بہت کچھ کیا جنھیں سراہا جانا چاہیے لاہور سے انجمن آرائیاں پاکستان کے روح رواں میاں سعید ڈیرے والا نے اپنے دوستوں جن میں میاں طلعت اورئینٹ والے، چوہدری شکیل جی ایم کیبلز والے، جنرل غلام مصطفی کوثر، میاں غلام مرتضی شوکت فاسٹ کیبلز والے، محسن گھرکی، گھرکی ہسپتال والے چوہدری حبیب کنول یونی بلڈرز والے صنعت کاروں کے رہنما میاں زاہد جاوید، میاں خالد حبیب الہی ایڈووکیٹ، چوہدری فضل الہی، ملک جاوید، میر افضل ودیگر سے کروڑوں روپے اکھٹے کر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک خیمے اور کپڑے بجھوانے کا اہتمام کیا ہے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اس کے سائیڈ ایفکٹس بھی بڑے خوفناک ہوتے ہیں ان علاقوں میں اب بیماریاں پھیل رہی ہیں متاثرین کی بحالی کے لیے انھیں گھروں کی تعمیر گرم کپڑوں ادویات اور خوراک کی اشد ضرورت ہے خدارا سیاسی سماجی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ متاثرین کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں سیاست اور جلسے جلوس ریلیاں ہوتی رہیں گی اگر خدا کو راضی کرنے کے لیے اس کی مخلوق کے دکھوں کا مداوا کریں گے تو اللہ آپ سے راضی ہو جائے گا سیلاب کی تباہ کاریوں سے جہاں جانی ومالی نقصان ہوا ہے وہاں آنے والے دنوں میں پاکستان میں خوراک کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے چونکہ بہت بڑے پیمانے پرفصلییں تباہ ہو چکی ہیں اس لیے آنے والے حالات کی بھی ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔