سید غضنفر عباس صاحب ملتان میں رہتے تھے۔ وہ سفید باریش داڑھی کے ساتھ انتہائی سادہ اور نیک انسان تھے۔ انہوں نے ساری زندگی نہ کسی کو تنگ کیا اور نہ کسی سے لڑائی کی۔ محلے والے اور دوسرے جاننے والے لوگ انکی شرافت کی گواہی دیتے ہیں۔ انکی زندگی میں دکھ اس وقت آنا شروع ہوئے جب انہوں نے اپنا ایک گھر کرایہ پر دیا تھا۔ سب اچھا جا رہا تھا مگر اچانک کرایہ دار نے کرایہ دینا بند کر دیا اور مکان پر قبضہ کر لیا۔ اب نہ تو کرایہ دار کرایہ دیتا تھا اور نہ ہی مکان خالی کرتا تھا۔
جب باوجود ہر قسم کی کوشش کے کرایہ دار نے مکان خالی نہ کیا تو غضنفر صاحب نے مجبوراً کرایہ دار کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔ مکان کے قبضے کا کیس آہستہ آہستہ چلتا رہا اور غضنفر صاحب وکیلوں کی فیسیں بھرتے رہے۔ بڑھاپے میں عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے غضنفر صاحب کی زندگی کے کئی سال گزر گئے۔ آخر کار غضنفر صاحب اپنے ہی گھر کا قبضہ چھڑوانے کی طویل عدالتی جنگ جیت گئے۔ مگر قدرت کو شاید انکا جیتنا منظور نہیں تھا، اسلئے کیس جیتنے کے ایک ہفتے بعد جس دن عدالت نے بیلف کے ذریعے مکان خالی کروانے کا آڈر دینا تھا، ٹھیک اسی دن فجر کی نماز کے لئے مسجد جاتے ہوئے راستے میں اپنے کرایہ دار کی گولیوں سے زندگی کی بازی ہار گئے۔
مرحوم سید غضنفر عباس صاحب قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے لیکچرر اور مشہور کالم نگار جناب عمران بخاری صاحب کے چچا تھے۔
ہمارے عدالتی نظام میں بے شمار خامیاں ہیں اور یہ نظام اب انصاف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ یہاں انصاف دینے کی بجائے مظلوم اور ظالم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ یہاں وکیل، جج، پولیس والے، چپراسی، عرضی نویس غرض ہر بندہ بکا ہوا ہے۔ اس سارے عمل میں سزا صرف غریب اور شریف انسان کو ہی ملتی ہے، جبکہ چالاک، ظالم، رشوت خور اور قاتل پیسے دے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے بننے کے فوری بعد قائداعظم وفات پا گئے اور حکومت ظالموں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا اور جسکی بنیادوں میں ہزاروں بےگناہوں کا خون شامل تھا، آزادی لینے کے بعد بھی غلام ہی رہا۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ مسلمانوں کے جو حقوق انگریزوں کی حکومت میں غضب ہو رہے تھے وہ پاکستان بننے کے بعد انہیں مل جاتے مگر آج پاکستان آزاد ہوئے 70 سال ہونے کو ہیں اور آج بھی سید غضنفر عباس جیسے بزرگ انصاف لینے کے لئے دھکے کھا کھا اپنی زندگی کی بازی ہار رہے ہیں مگر انصاف ملنا تو درکنار انصاف نام کی کسی چیز کا دور دور تک نشان بھی نہیں مل رہا۔
اللہ تعالی قرآن میں سورۂ النِسا آیت 58 میں فرماتے ہیں کہ،
“بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے”۔
سورۂ البقرہ آیت 188 میں ارشاد ہے کہ،
“ﺍور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور نہ انہیں حاکموں تک پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو”۔
نبی پاک صلی اللہ وسلم کا ارشاد ہے کہ،
“لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے”۔
افسوس آج ہم قرآن اور حدیث سے دور ہوتے جارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک پر نااہل حکمران مسلط ہوگئے ہیں اور ہماری زندگیوں سے انصاف اور ایمانداری اٹھ گئی ہے اور بے سکونی ہمارے دلوں میں گھر کر گئی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مزید سید غضنفر عباس جیسے بزرگ انصاف کے حصول میں لڑتے لڑتے اپنی زندگی کی بازی نہ ہاریں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں ایمانداری اور انصاف لانا ہوگا، اگر ہم ٹھیک ہوگئے تو ہمارے حکمران بھی اچھے آ جائیں گے اور ہمارا عدالتی نظام بھی ٹھیک ہو جائے گا۔
This is not only a loss of a kind person but a loss of humanity.
Justice or law of Jungle?