Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
296

برطانیہ یورپ کشتی کی بجائے قانونی طریقے سے بھی جایا سکتا ہے

میں اپنے اوورسیز پاکستانی دوستوں سے کہتا ہوں کہ جب بھی وہ وطنِ عزیز جائیں تو وہاں اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں کو کبھی اپنے ٹھاٹھ باٹھ سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی انہیں یہ جتانے کی کوشش کریں کہ ہمارے تعلقات پاکستان کے بڑے بڑے (نام نہاد) سیاستدانوں، اثر و رسوخ والے افسران اور مشہور لوگون سے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہمارے غریب احباب کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ بھی ایک بار ملک سے باہرچلے گئے تو ان کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے اور اُن کے ہاتھ میں بھی جادو کی چھڑی آ سکتی ہے۔ روشن اور بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا بلاشبہ ہر انسان کا حق اور زندگی کے ارتقاء کی دلیل ہے لیکن اچھے دِنوں کی آس اور بہتر امکانات کی امید میں اپنی زندگی کو ہی داؤ پر لگا دینا کسی بھی طرح مناسب اور جائیز نہیں۔ پاکستان میں عوام کو سبز باغ دکھانے کے لئے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے علاؤہ وہ بے رحم ایجنٹ ہی کافی ہیں جو غریبوں کی جمع شدہ پونجی ہڑپ کر کے انہیں سمندروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس لئے اوورسیز پاکستانی اپنے غریب ہم وطنوں کو مزید کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنے سے گریز کریں اور انہیں حقائق سے آگاہ کریں کہ اب برطانیہ اور یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے وہ ایجنٹوں کے بہکاوے میں آ کر قرض میں لی گئی رقم یا جائیداد کو فروخت کر کے حاصل ہونے والے سرمائے کو داؤ پر نہ لگائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ کی امیگریشن پالیسیز میں غیر قانونی تارکین وطن کے لئے کچھ نہ کچھ گنجائش موجود تھی مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔وہ ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن جو ہر سال اس امید پر سمندوں کا خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید اُن کی کشتی کسی یورپی ملک کے کنارے لگ جائے گی۔ اُن میں سے چند ایک کو ہی کنارہ نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی امیگریشن کیمپوں میں کٹھن وقت گزارنے کے بعد واپس وطن بھیج دیئے جاتے ہیں۔

یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں امیگریشن کے قوانین ایسے ہیں جو ہمدردی کی بجائے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ تقریباً 24برس پہلے دلّی سے لندن آنے والی پرواز کے پہیوں میں چھپ کر دو بھائیوں نے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کی تھی جن میں ایک تو سردی سے ٹھٹھر کر راستے میں ہی دم توڑ گیا تھا جبکہ دوسرا بھائی نیم مردہ حالات میں ہوائی اڈے کے رن وے پر گر کر شدید زخمی ہو گیا تھا جسے علاج معالجے کے بعد ڈی پورٹ کر کے واپس انڈیا بھیج دیا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے کو اس لئے برطانیہ میں پناہ نہیں دی گئی تھی کہ کہیں اس سانحے کے بعد مجبور لوگ جہاز کے ٹائروں میں چھپ کر برطانیہ نہ پہنچنا شروع ہو جائیں۔ ہزاروں غیر قانونی تارکینِ وطن میں سے جو چند ایک یورپی ساحلوں پر پہنچ بھی جاتے ہیں تو انہیں اس لئے پناہ نہیں دی جاتی اور واپس اُن کے وطن بھیج دیا جاتا ہے کہ اس طریقے سے یورپ میں داخل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور انسانی سمگلروں کے کاروبار کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ ہر سال ہزاروں مجبور لوگ حالات کی سنگینی کو جانتے ہوئے بھی اپنی جان کی بازی لگا کر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ جو لوگ تیس چالیس لاکھ روپے ایجنٹوں کو دے کر ملک سے باہر جانے کے لئے ہر طرح کا رسک لینے کو تیار ہو جاتے ہیں وہ غریب یا مفلوک الحال نہیں ہوتے۔ اب اِ ن دانشوروں کو کون سمجھائے کہ قسمت کے مارے یہ لوگ کہاں کہاں سے قرض لے کر یا اپنی جائیداد اور گھر کی عورتوں کے زیور فروخت کر کے یہ رقم ایجنٹوں کے حوالے کرتے ہیں اور وہ بھی صرف اس لئے کہ ایک بار وہ یورپ پہنچ گئے تو اُن کے سب دلدرد دور ہو جائیں گے اوراُن کی بدبختی خوش قسمتی میں بدل جائے گی۔ اس کے باوجود کہ ہر سال ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن کے سمندروں میں ڈوبنے اور جنگلوں میں بھوک اور پیاس سے مرنے کی خبریں آتی ہیں مگر پھر بھی یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آتا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک کے غریب، مجبور اور لاچار لوگوں کی زندگی کس قدر مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی وہ اب ایسے سنگین مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں کہ جس پر وہ موت کے منہ میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسانی سمگلروں کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُن مفاد پرست اربابِ اختیار اور حکمرانوں کا بھی کڑے سے کڑا عوامی احتساب کیا جائے جن کی وجہ سے پاکستان کے حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ بے سہارا اور مجبور عوام کی اکثریت اپنی جان اور زندگی کی پروا کئے بغیر اپنے وطن اور اپنے پیاروں کی زخمی روحوں اور دکھ بھرے جیون سے دور چلے جاتے ہیں۔ اپنے وطن کی سرحدوں سے دور جانے والے اپنے پیچھے رہ جانے والے پیاروں سے یہ وعدہ کر کے جاتے ہیں کہ وہ انہیں بھی جلد ہی اپنے پاس بلا لیں گے اور انتظار کرنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ 

جائیں گے ہم بھی خواب کے اس شہر کی طرف

کشتی  پلٹ  تو  آئے  مسا فر  اُتار  کے

(ڈاکٹر وزیر آغا)

لیکن یہ کشتی نہ تو اپنے مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچا پاتی ہے اور نہ ہی پلٹ کر واپس آتی ہے۔ اپنے وطن، اپنی دھرتی اور اپنی مٹی سے محبت انسان کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔ اپنے دیس کو چھوڑ کر پرائے اور اجنبی دیس میں پناہ تلاش کرنا اور وہاں اپنے قدم جمانا آسان مرحلہ نہیں ہوتا۔ جو خوش قسمت یا قسمت کے مارے سات سمندر پار کسی خوشحال ملک میں پہنچ جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنے اقتصادی حالات کو بہتربنا لیتے ہیں تو پھر وطنِ عزیز میں بسنے والا پورا خاندان اپنی ہر اقتصادی ضرورت اُن سے وابستہ کر لیتا ہے۔ بقول خاقان خاور

میں پاؤں پہ کھڑا ہوا تو پورا خاندان

آکاس بیل کی طرح مجھ سے لپٹ گیا

برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک نے غیر قانونی تارکینِ وطن کا راستہ روکنے کے لئے اپنی امیگریشن پالیسی میں ورک پرمٹ کے ذریعے سے لوگوں کو ویزا دینے کی گنجائش نکالی ہے۔ جو لوگ برطانیہ آنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ کسی ایجنٹ کے جال میں پھنسنے کی بجائے برطانوی ہوم آفس کی ویب سائٹ کا مشاہدہ کریں جہاں انہیں یونائیٹڈ کنگڈم کی امیگریشن پالیسی کے بارے میں ہر طرح کی معلومات میسر آ جائیں گی۔ ورک پرمٹ کے ویزے کے لئے جس قسم کے ہنرمند افراد کی برطانیہ میں ضرورت ہے اس کی تفصیل بھی ویب سائٹ پر مل جائے گی۔ آج بھی پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چین کے طالبعلموں کی بڑی تعداد برطانوی یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلے کے حصول کے بعد سٹوڈنٹ ویزے پر یہاں آ رہی ہے۔ اِن کے علاؤہ ہنرمند افراد کے لئے بھی بڑی تعداد میں ورک پرمٹ کے اجراء کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر قانونی طریقے سے ایجنٹوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے خواہشمندوں سے میری گزارش ہے کہ خدارا روشن مستقبل کی آس میں اپنی زندگی کو داؤ پر نہ لگائیں۔ اگر آپ ہی گمنام دیاروں کے سفر میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے تو پھر کہاں کا روشن مستقبل اور کہاں اُن خوابوں کی تعبیریں جو آپ کے گھر والوں نے آپ سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اگر آپ اپنا سب کچھ لٹا کر سمندر میں غرق ہو گئے تو آپ کے بعد اُن ماں باپ اور بہن بھائیوں کا کیا ہو گا جن کی آخری امید آپ تھے۔ خواب بہت قیمتی ہوتے ہیں لیکن زندگی ان سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے اِنسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔جن پیاروں کے لئے آپ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں آپ کے بعد انہیں کن اذیتوں، عذابوں اور زندگی بھر کے روگ کو سہنا پڑے گا اس پر بھی کچھ دیر کے لئے غور کرنا چاہئے۔اپنی زندگی اور مستقبل کے سنہرے خواب موت کے اُن سوداگروں کے حوالے نہ کریں۔ جو اب تک لاکھوں لوگوں کو موت کے سفر پر روانہ کر کے اپنی تجوریاں بھر چکے ہیں۔اِن ظالم اور سفاک انسانی سمگلروں کے بہکاوے اور فریب میں نہ آئیں اور جو لاکھوں روپے آپ نے اِن ایجنٹوں کو دینے ہیں اس سرمائے سے کوئی ہنر سیکھیں۔ یہ ہنر ملک کے اندر اور بیرون ملک آپ کے کام آئے گا اور آپ کو قیمتی بنائے گا۔ 70ء اور 80ء کی دہائی میں برطانیہ آنے والے پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت یہ سوچتی تھی کہ مالی خوشحالی کے بعد وہ پھر سے واپس وطن عزیز جا کر آباد ہوں گے اور شاندار زندگی گزاریں گے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ آنے والے دِنوں میں پاکستان کے مسائل اس قدر سنگین ہو جائیں گے کہ ہر دوسرا بالغ پاکستانی موقع ملنے پر اپنا ملک چھوڑنے کو ترجیح دے گا۔ بے چارے عوام ہی کیا ہمارے سابقہ حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی اکثریت بھی اب پاکستان کو اپنے لئے ایک محفوظ ملک نہیں سمجھتی اور خوشحال ملکوں میں باقی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اللہ اہلِ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے۔

٭٭٭