212

اے مری زندگی بہاول پور

اے مرے شہر میرے دل کے سرور

اے مری زندگی بہاول پور

اپنا شہر سایہ دار شجر کی طرح ہوتا ہے جہاں پہنچتے ہی ایسا لگتا ہے زندگی کی تیز دھوپ میں گھنی چھاؤں میسر آ گئی ہے۔ جن گلی کوچوں میں پروان چڑھ کر انسان عمر کے مختلف مرحلے طے کرتا ہے وہ تاحیات اس کی یادوں بلکہ خوشگواریادوں کا حصہ بنے رہتے ہیں اور اگر کسی کو اپنا شہر چھوڑ کر سمندر پار دیارِغیر میں آباد ہونا پڑے تو وہ ہر پل وطن سے فرقت یعنی ناسٹیلجیا کی کیفیت سے گزرتا رہتا ہے۔ ہر خوشی اور دکھ کے موقع پر اپنے پیارے اور اپنا شہر اُسے شدت سے یاد آتے ہیں۔ جس شہر کے لوگ دریائے ستلج کا پُل عبور کر کے خود کو پردیسی سمجھنے لگیں اگر انہیں اس دارلسرور سے ہزاروں میل کی دوری اور ہجرت کا دکھ سہنا پڑے تو اس کا مطلب ہے کہ کسی بہت بڑی مجبوری نے صحرا نور دکو سمندروں کے سفرپر روانہ کیا ہے۔ مجھے بہاول پور سے جدا ہوئے تیس برس ہو چکے ہیں، میں دسمبر 1993 میں جب اس شہر سے سمندروں کے سفر پر نکلا تھا تو مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ مسافت اس قدر طوریل ہو جائے گی۔ تیس پینتیس ملکوں اور درجنوں شہروں کی سیاحت کے باوجود بہاول پور میرے دل میں بستا ہے۔ میرا شوق آوارگی مجھے دنیا کے خوبصورت جزیروں، ساحلوں، پہاڑوں، جنگلوں، جھیلوں، آبشاروں، دریاؤں، وادیوں اور بے مثال منظروں تک لے گیا لیکن میں آج بھی چولستان کی چاند رات اور بہاول پور میں آوارگی کے دنوں کو فراموش نہیں کر پایا۔ اس شہر نے مجھے پروان چڑھایا اور اس قابل بنایا کہ اپنی کیفیات اور محسوسات کو الفاظ اور تحریرکے قالب میں ڈھال سکوں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو مسافر بستی بستی اور شہر شہر گھومتے ہیں وہ اپنے گھر کار ستہ بھول جاتے ہیں۔ بہاول پور میرا گھر ہے اور گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اپنے گھر کا رستہ نہیں بھولا، بھول بھی کیسے سکتا ہوں جو شہر میری مادرِ علمی ہو، جہاں میری محبتیں آج بھی سانس لے رہی ہیں، جس کے درودیوار آج بھی میرے شعری ارتقا کے گواہ ہیں، جس کے صحرائی حوالے کا میں آج بھی اسیر ہوں، جس کی ریاستی زبان آج بھی میرے کانوں میں رس گھولتی ہے، جس کی تہذیبی اور ثقافتی روایات کا اثاثہ میرے لئے ہمیشہ معتبر رہا ہے میں اپنے اس دیارِ محبت کو کیسے فراموش کر سکتا ہوں۔

جو لوگ اجنبی دیاروں کے سفر سے لوٹ کر واپس آتے ہیں انہیں اپنا گھر پہلے سے بھی زیادہ اچھا لگتا ہے اور پھر بہاول پور تو ہے ہی بہت اچھا، شہر بے مثال، کئی سو برس کی تاریخ کا امین، قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے سفر کا سنگ میل……کاش کوئی ہمارے بعد کی نسلوں کو بہاول پور کی ریاستی اور صوبائی حیثیت کی تاریخ سے آگاہ کرے بہاول پور صرف ایک شہر، ایک ضلع یا ایک ڈویژن نہیں ہے یہ پورے پنجاب میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا انتظامی یونٹ اور قلب پاکستان یعنی وطنِ عزیز کا دل ہے۔ میں ہر سال جب بھی لندن سے بہاول پور جاتا ہوں تو یہ شہر مجھے پہلے سے زیادہ پرکشش لگتا ہے یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے دل میں اس کی محبت کا شجر اور زیادہ گھنا ہوتا جا رہا ہے کسی بھی شہر سے محبت اور اپنائیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے وہاں آپ کے پیاروں اور اپنوں کے خلوص اور رفتگاں کی یادوں کی خوشبو فضاؤں میں بسی رہتی ہے۔ اس بار میں جب بہاول پور پہنچا تو درجہ حرارت 44 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ چکا تھا، زیادہ وقت والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرا۔ حسب سابق ایک دن صبح سویرے اور ایک دن شام ڈھلے پورے شہر کی پیدل یاترا کی، اُن گلی محلوں میں اکیلا گھومتا رہا جہاں بچپن لڑکپن اور جوانی کے دن گزرے تھے کئی گلیاں جہاں قدم اچانک رک جاتے تھے اب وہاں کے دریچے بھی بے صدا ہو چکے تھے، بہت سے لوگ جو ہمارے محلوں کی رونق ہوا کرتے تھے اور جن کی وجہ سے بزم آرائیاں تھیں اب آسودہئ خاک ہیں صرف ہماری بزم خیال میں ہی اُن کی یادوں کے چراغ روشن ہیں۔ ایک دِن والد صاحب کی قبر پر فاتحہ کے بعد گھر پہنچا تو طبیعت بہت اُداس ہو گئی شام ڈھلنے لگی تو تین منزلہ گھر کی چھت پر دیوار سے لگ کر ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنے لگا، آسمان پر شفق پھیلی ہوئی تھی، تھکے ہوئے پرندے واپس اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے، قریبی درختوں سے چڑیوں کے شور نے ماحول کو پُراسرار بنا رکھا تھا کہ ایک دم مغرب کی اذان نے اس طلسم کا خاتمہ کر دیا۔ ہر طرف سے موذن اللہ سب سے بڑا ہے کی گواہی دینے لگے۔ نماز اور فلاح کی طرف بلانے لگے۔ نماز کے بعد یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس میں بہت سے ناموں کا اضافہ ہوتا چلا گیا، ولی اللہ اوحد، نذیر ناز، بابر شاہین، گلزار اختر، امجد قریشی، خلیل انور جمالی، رانا عبدالسلام، اسلام ضمیر، خالدہ رفعت، مرزا نعیم اختر اور بشیر انصاری یاد آئے، سہیل اختر، دلشاد کلانچوی، آلِ احمد، منور جمیل قریشی، سرور ناز، عزیز وطنی، نقوی احمدپوری، ممتاز بزمی، حبیب اللہ بھٹہ، شہود رضوی، ڈاکٹر وسیم اختر، یوسف لودھی، ایس ایم سلیم اور خالد شوق سے ملاقاتوں اور یادوں نے پلکوں میں آنسوؤں کے موتی پرو دیئے۔ ہائے کیسے کیسے لوگ اس شہر کی رونق ہوا کرتے تھے جنہوں نے آسمانوں سے دور اپنی بستیاں بسا لی ہیں مگر وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ آباد رہیں گے۔ اس بار بھی بہاول پور پہنچنے سے پہلےاپنے اساتذہ ڈاکٹر سید قاسم جلال اور نسیم صدیقی صاحب (جو کہ ایس ای کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے)کے علاوہ بہت سے دیرینہ احباب سے ملاقات کا ارادہ کر کے لندن سے روانہ ہوا تھا مگر موسم کی شدت اور وقت کی قلت کے باعث صرف چند دوستوں سے ہی ملاقات ہو پائی، سعید احمد، خالدخلیل سید، قدرت اللہ شہزاد، ندیم آصف، یوسف کامران، اسلم درانی اور عبدالاحد سے گپ شپ نے بہاول پور کے دورے کا لطف دوبالا کر دیا، یہ ممکن ہی نہیں کہ میں بہاول پور جاؤں تو ڈاکٹر راؤ جاوید اختر اور ڈاکٹر ایم نسیم ندیم سے ہر روز ملاقات نہ ہو، یہ دونوں صرف میرے دوست ہی نہیں بلکہ اُن مہربان محسنوں کی طرح ہیں جن کے خلوص اور مہربانیوں کا قرض میں چاہوں بھی تو اُتار نہیں سکتا۔ خالقِ کائنات ایسے بے لوث اور مخلص لوگوں کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھے جن کی زندگی کا بڑا مقصد ہی لوگوں کے کام آنا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے دعوے کرنے کی بجائے اپنے حصے کا چراغ جلا کر اندھیرے کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں ……اوور سیز پاکستانیوں کے لئے اپنے ملک میں سب سے بڑی کشش اپنی مٹی سے محبت اور اپنے والدین ہوتے ہیں۔ جن تارکین وطن کے والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ کم ہی پاکستان آتے ہیں وہ دیارِ غیر میں ہی اپنی دھرتی کے ہجر میں سسکتے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اوورسیز پاکستانی برطانیہ اور دیگر ملکوں سے اپنی فیملیز کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آتے تھے اور اپنے بچوں کو وہ گلیاں، محلے اور گاؤں دکھا کر خوش ہوتے تھے جہاں وہ خود پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے۔

چند برس پہلے میرے ایک دوست اپنے تین ٹین ایج بچوں کو لندن سے راولپنڈی لے کر گئے۔ بچے اپنے والد کے آبائی گھر اور محلے کو دیکھ کر خوش تو ہوئے لیکن اُن کی سرشاری اور مسرت کی کیفیت وہ نہیں تھی جو میرے اس دوست کی تھی جس کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی ہر یاد اِن گلیوں سے وابستہ تھی۔ میرے دوست کا بڑا بیٹا اپنے والد سے کہنے لگا کہ ”ڈیڈی جس طرح آپ کو اپنے شہر اور گلی محلوں سے محبت ہے اور جس طرح آپ لندن میں بھی انہیں یاد کرتے رہتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی لندن اور اس کے سکولوں، پارکوں اور علاقوں سے محبت ہے جہاں ہمارا بچپن گزرا ہے جس طرح آپ لندن میں راولپنڈی کو یاد کرتے رہتے ہیں اسی طرح ہم راولپنڈی میں لندن کو یاد کر رہے ہیں“ میرا دوست اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر ایک لمحے کے لئے حیران اور ششدر رہ گیا لیکن پھر اُسے خیال آیا کہ واقعی جو بھی انسان جہاں پیدا ہوتا اور پروان چڑھتا ہے اس کے لئے وہی علاقے شہر یا گاؤں اس کی خوشگوار یادوں اور زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ سرزمین انہیں واپس بلا رہی ہے۔برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں تقریباً 84 ملکوں کے تارکین وطن آباد ہیں یعنی اس شہر میں 46 فیصد آبادی نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے جو تین سو مختلف زبانیں بھی بولتے ہیں اِن تارکین وطن کے بچوں کی اکثریت یو کے میں پیدا ہوئی ہے۔ بہت سے ملکوں کے تارکین وطن اپنے بچوں کو اپنے آبائی ملکوں میں چھٹیاں گزارنے کے لئے لے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات وقت گزرنے کے ساتھ اس قدر دگرگوں ہو گئے ہیں کہ پاکستانی تارکین وطن اپنے بچوں کو تو کیا وہ خود بھی اپنے آبائی ملک جانے سے گریز کرنے لگے ہیں حالانکہ اُن کے دیس میں اداس بام اور کھلے در انہیں پکارتے ہیں مگر وہ اپنی دھرتی سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ میں جب بھی بہاول پور جاتا ہوں تو اس کی آب و ہوا کی تاثیر مجھے پھر سے سرشار کر دیتی ہے یہ شہر میری آرزوں، امنگوں، خواہشوں، حسرتوں، تمناؤں، امیدوں، توقعات اور امکانات کا شہر ہے

میری وابستگی تجھی سے ہے

تو مری ذات کا حوالہ ہے

تو ہے دھرتی تو میں ترا بیٹا

تیری ممتا نے مجھ کو پالا ہے

تھامتے ہیں مجھے ترے بازو

جب بھی ہوتا ہوں میں تھکن سے چور

اے مری زندگی بہاول پور

اس بار بہاول پور پہنچتے ہی یہ اطلاع ملی کہ انعام الحق راشد دِل کے دورے کی وجہ سے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ خبر سن کر دِل پر ایک گہری چوٹ لگی۔یہ نوجوان ہمارے شہر کے نامور کرکٹ ایمپائر اور صحافی بی کے طاہر کا فرزنداور صحافی راحیل طاہر کا بھائی بھی تھا۔انعام الحق بہاول پور سے پہلا نوجوان تھا جو 90ء کی دہائی میں مجھے جنگ لندن کے دفتر آ کر ملا اور ہم بہت دیر تک اپنے شہر کی باتیں کرتے رہے۔ انعام بہت عمدہ کرکٹر(وکٹ کیپر) تھا اور برطانیہ میں ایک کرکٹ کلب کے لئے کھیلتا تھا۔ بعد ازاں وہ مستقل پاکستان کا ہو کر رہ گیا اور کالم نویسی کے ذریعے بہاول پور کی پہچان بنا۔ میں جب چوک فوارہ پر اس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوا تو پورا شہر اس شاندار انسان کو آخرت کے سفر پر روانگی کے لئے الوداع کرنے آیا ہوا تھا۔ اللہ انعام الحق راشد کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور سب پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ بہاول پور سے لندن واپسی پر میں کچھ دیر کے لئے شاکر حسین شاکر سے ملنے کے لئے ملتان رکا۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ”چڑیاں دا چنبہ“ عنایت کی۔ اس کتاب نے میرے جہاز کے سفر کو مختصر کر دیا۔ جن کے گھر میں بیٹی ہے اُنہیں یہ عمدہ اور شاندار کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ شاکر سے کتاب نگر میں ہونے والی یہ ملاقات بہت مختصر رہی۔ وہ بہت خلوص اور اپنائیت سے ملے۔ رخصت ہوتے مجھے لگا کہ وہ کسی گہری سوچ یا پریشانی میں مبتلا ہیں پھر اگلے روز معلوم ہوا کہ اُن کے سر سے والدہ کا سایہ اُٹھ گیا اور بہت سے کامیاب اور اچھے انسانوں کی طرح شاکر حسین شاکر بھی اپنی والدہ سے بہت قربت اور جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔ اللہ رب العزت انکی والدہ کے درجات بلند کرے۔ دھرتی ماں ہو یا جنم دینے والی ماں کسی ایک سے بھی جدائی انسان کو زندگی بھر ناقابل بیان محرومی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ خالقِ کائنات کسی کو ماں کی بے لوث محبتوں کے سائبان اور دھرتی کی پہچان سے محروم نہ کرے۔(آمین)

٭٭٭