اردونامہ ویب ڈیسک (منصور ندیم) سعودی عرب کی حالیہ حکومت نے مدینہ کے داخلے کی شاہراؤں پر ایک ایسی تبدیلی کی ہے، جو یقینا ہمارے ہاں گفتگو کا موضوع بن جائے گی، جو دوست کبھی بھی زندگی میں مکہ اور مدینہ گئے ہوں گے، یا جو مستقل یہاں رہتے ہیں اور براستہ جب مکہ یا مدینہ کاسفر کرتے ہیں تو مدینہ و مکہ کے داخلہ راستوں پر انہیں “للمسلمین فقط” کا بورڈ نظر آتا تھا ، یعنی اس راستے پر صرف مسلمانوں کو داخلے کی اجازت ہے، خصوصا مدینہ میں رہنمائی کے لئے سڑکوں پر ایسے بورڈز موجود تھے جس میں دو راستوں کی تفریق تھی کہ ایک راستہ جو “حرم نبوی ﷺ” کے لئے مخصوص تھا، جب کہ کاروباری و ضروریات زندگی کی سپلائی سے وابسطہ بڑی گاڑیوں کے لیے جنہیں اکثر یہاں پر نوکریوں کی غرض سے آنے والے غیرملکی غیر مسلم چلاتے ہیں، ان کے لئے دوسرا راستہ” غیر مسلموں کے لئے” لکھے ہوئے بورڈز نظر آتے تھے۔
بنیادی طور پر مدینہ منورہ عہد نبوی ﷺ میں آج کی موجود مسجد نبوی کے احاطے تک کا ہی شہر تھا ، بعد از امتداد زمانہ اب مدینہ شہر بہت پھیل گیا ہے، بلکہ مدینہ منورہ کو شہر کے علاوہ ضلع کی حیثیت بھی حاصل ہے ، اور اس کے اس پاس کے علاقوں کو مدینہ ضلع کی کمشنریوں کی حیثیت حاصل ہے جو کہ قریب 151,990 کلو میٹر کا حصہ بنتا ہے جن میں مدینہ “Medina” (آبادی 995,619), الحنیکیہ “Al Hunakiyah” (آبادی 52,549), مہد الذھب Mahd Al” Thahab” ( آبادی53,687), العلاء “Al-‘Ula” (آبادی 57,495), بدر و الحنین “Badr Hunayn” (آبادی 58,088), خیبر “Khaybar” ( آبادی 45,489), ینبوع البحر Yanbu Al Bahar” (آبادی 249,797), اور مدائن صالح “Mada’in Saleh”۔ شامل ہیں۔ ان میں سے تین کمشنریاں مدائن صالح، ینبوع البحر اور العلاء اس وقت آثار قدیمہ UNESCO World Heritage Site کی فہرست میں شامل ہیں، ممکنہ طور پر یہ پیش رفت موجودہ سعودی حکومت کی سیاحت کی ترویج کے لئے عالمی ثقافتوں اور بین الاقوامی برادری کے لیے روداری کے لئے بھی ہوسکتی ہے۔
اسی ضمن میں یہ تبدیلی راستہ بتانے والے ان بورڈز کو “غیر مسلم” کی بجائے اب “حدود حرم” کی شکل میں لکھے ہوئے بورڈز کی صورت سامنے آئی ہے۔ اب مدینہ منورہ میں داخل ہونے والے لوگوں کو وہاں پر پہلے سے لگائے گئے گائیڈ بورڈز پر “غیر مسلم” کی جگہ نئے بورڈز “حدود حرم” لکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ ماضی میں یہ بورڈز مدینہ منورہ کے لئے ایک عام تاثر تھا کہ حرم مکی کی طرح حرم مدنی میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتے۔
سعودی عرب کے مقامی اخبار العربیہ نے مدینہ منورہ کے ریسرچ اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فہد الوھبی کا اس حوالے سے یہ ریفرنس دیا ہے ۔
“مدینہ منورہ کا شہر کئی گروپوں کا مشترکہ کارنامہ تھا۔ ان میں سے کچھ گروپ یمن سے یہاں آئے جو انصار کہلاتے تھے۔ ایک گروپ شام سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے بھی مدینہ منورہ ہی میں قیام کیا۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے علاقوں سے لوگ وہاں آتے اور آباد ہوتے چلے جاتے۔ جب آنحضرت ﷺ یہاں تشریف لائے تو یہاں پر کئی مذاہب کے پیروکار موجود تھے۔ آپ نے وہاں سے مذہب کی بنیاد پر کسی کو بے دخل نہیں کیا تھا بلکہ ان ہزاروں افراد کی سکونت کو تسلیم کیا گیا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کےدرمیان طے پانے والے امن معاہدوں اور سماجی تحفظ کے معاہدوں میں غیر مسلموں کو مکمل تحفظ دیا گیا۔
اس حوالے سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے ایک روایت بھی مروی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ کی زرع ایک یہودی کے پاس رہن رکھی گئی تھی۔ علما اس روایت کو مدینہ منورہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ نبی ﷺ کی زرہ کا ایک یہودی کے ہاں رہن رکھنا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تجارتی لین دین کا ثبوت ہے۔ یہ لین دین خود نبی ﷺ اور آپ کے بعد خلفا راشدین کے دور میں بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔
فقہی اعتبار سے بھی حرم مکی کے برعکس حرم مدنی میں غیر مسلموں کے داخلے پر کوئی ایسا واضح حکم امتناع اور داخلے پر پابندی نہیں ملتی ہے، بلکہ بعض فقہا تاریخی حوالوں کو پیش کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے تجارتی مقاصد اور تعمیرات کے لیے انہیں وہاں داخل ہونے کے اجازت کے قائل ہیں۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مسجد نبوی ﷺکی توسیع کا کام نصاریٰ سے کرایا۔ تاہم اس حوالے سے علما اور فقہا میں معمولی اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
ویسے بھی مدینہ منورہ کا دینی مقام ومرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے۔آپ ﷺ نے اس شہر کو ایک نئی حیثیت دی تھی، انہوں نے ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا جس میں
“مقام عیر سے جبل ثور تک کے مقام کو حرم قرار دیا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ کے مطابق جبل عیر سے جبل ثور تک کے مقام کو حرم مدنی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو اس میں کوئی بدعت شامل کرے گا یا بدعت کا سبب بن کر مسلمانوں کو اذیت دے گا تو اس پر اللہ اور فرشتوں کی لعنت ہے اور وہ آخرت میں اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گا۔”
بہرحال اب مدینہ منورہ میں داخلے کے لیے مذہب کی کوئی قید نہیں ہوگی، غیرمسلمانوں کے لئے مدینہ میں ممنوعہ علاقے صرف مقام عیر سے جبل ثور تک یعنی صرف حرم مدنی کی حدود میں اب غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی عائد ہوگی، جہاں حضور ﷺ، اور آپﷺ کے صحابہ اور اہل بیت آسودہ خاک ہیں۔ باقی تمام تاریخی آثار قدیمہ تک غیر مسلمان سیاحوں کو رسائی دی جائے گی
نوٹ :
۱- یہ مضمون اخبار العربیہ کی مدد سے لکھا گیا ہے –
۲- مدینہ منورہ پر پہلے قدیم بورڈز میں قدیم عربی رسم الخط استعمال ہوتاتھا لیکن اب اس کی جگہ مدنی رسم الخط سے لکھا گیا ہے جو عام فہم رسم الخط ہے۔
#منصور_ندیم