450

سویڈن میں نوجوانوں میں بڑھتے جنسی تشدد پر مبنی نئی رپورٹ

سویڈش اون لائین اخبار ڈاگنز ڈاٹ ایس ای کے مطابق نرس کیترینا سوینسن فلڈ نے 2020 میں سویڈن میں خطرناک جنسی رجحان کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے نوجوان، خاص طور پر خواتین ہارڈ سیکس کی وجہ سے جنسی تعلقات کے دوران درد کا سامنا کرتی ہیں. سوینسن فلڈ نے ایسے حالات کی وضاحت کی جہاں نوجوان لڑکیوں کو جنسی تعلقات کے دوران جسمانی طور پر تناؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسے کہ انہیں انہیں زبردستی اورل سیکس کیلئے فورس کیا جاتا ہے جس سے وہ تقریبا” قے تک کردیتی ہیں۔ سیڈسوینسکان کے ساتھ انٹرویوز میں متعدد نوجوان خواتین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہیں بغیر کسی انتباہ یا رضامندی کے اورل اور اینل سیکس پر مجبور کیا گیا، جس کی وجہ سے خوف اور جسمانی درد پیدا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون نے اس طرح کے تجربے کے دوران “برہنہ اور مکمل طور پر چھوڑے جانے” کے احساس کو بیان کیا۔

اسٹاک ہوم یونیورسٹی کی پروفیسر کیرولینا اوورلین نے نوجوانوں کے قریبی تعلقات میں تشدد پر تحقیق کی ہے۔ ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 19 سال کی عمر کی تمام لڑکیوں میں سے نصف کو تعلقات میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے. اوورلین نے نشاندہی کی کہ بہت سی نوجوان لڑکیاں یہ نہیں جانتی ہیں کہ انہیں انکار کرنے کا حق ہے اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی خواہش پر راضی ہوجائیں۔ گرلز اینڈ ٹرانس شیلٹر میں کام کرنے والی جولیا ژیگالیوا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو ان مسائل میں کردار ادا کرنے والے عنصر کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کو جنسی تعلقات کی مسخ شدہ تصویریں ملتی ہے، جہاں غالب مردوں اور فرمانبردار خواتین کو معمول کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے نوجوانوں پر دباؤ پڑتا ہے کہ وہ بستر پر برے یا بورنگ کردار کے طور پر سامنے نہ آئیں اور جو مرد پارٹنر کہے وہی کریں۔

نوٹ؎ یہ خبر بےراہ روی کے شکار اور مادر پدر آزاد نوجوانوں کے بارے میں ہوسکتی ہے، سویڈن میں لاکھوں خاندانی اور مذہبی خیالات رکھنے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی ہیں جو ایسے کاموں میں پڑھنے کی بجائے اپنا خاندان بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔