Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
248

قومی اتفاق رائے

آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر نے کمان سنبھالنے کے بعد پہلی بار ملکی معاملات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے انھوں نے کراچی میں کہا کہ دہشتگردی اور معیشت اس ملک کے چیلنجز ہیں اور ان کے حل کے لیے قومی اتفاق رائے ضروری ہے اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے بیماری کی تشخیص کر لی ہے اب اس کے علاج کی ضرورت ہے ہماری اطلاعات ہیں کہ ان کے کمان سنبھالنے کے بعد جو پہلا کور کمانڈرز اجلاس ہوا ہے اس میں بھی موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جتنا مرضی کہے کہ ان کی سیاسی معاملات میں دلچسپی نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کے سیاسی معاملات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں سیاستدانوں کی لڑائی سے جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اس سے ملکی سلامتی متاثر ہو رہی ہے اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا افواج پاکستان نے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوا ہے قومی سلامتی کے متاثر ہونے کو تمام ادارے بخوبی محسوس کر رہے ہیں لیکن تاحال کوئی بھی کردار ادا کرنے کی طرف نہیں آرہا توقع یہ کی جا رہی تھی کہ یا تو یہ لڑ لڑ کر تھک جائیں گے یا پھر ان کو سمجھ آجائے گی اور معاملات کو خود ہی مل بیٹھ کر طے کر لیں گے لیکن ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے معاملات بیان بازی سے آگے نکل کر دست وگریبان ہونے تک پہنچ چکے پی ڈی ایم وفاقی اداروں کے ذریعے تحریک انصاف کو دبوچنے کے لیے پر تول رہی ہے اور تحریک انصاف پنجاب کے اداروں کے ذریعے کارروائی کی پلاننگ کر رہی ہے آنے والے دنوں میں لڑائی دوبدو کے مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے لیکن نہ انھیں کوئی چھڑوانے والا ہے اور نہ انھیں سمجھانے والا ہے اور نہ انھیں خود احساس ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدان ریفری کے بغیر نہیں کھیل سکتے اب یا تو ریفری والا کردار اسٹیبلشمنٹ کو ادا کرنا پڑے گا یا پھر عدلیہ کو آوٹ آف دی وے جانا پڑے گا لیکن خدارا اب مزید تماشہ دیکھنے کی گنجائش نہیں، مٹ جائے گی خلق خدا تو انصاف کرو گے، ہمیں ایک ہزار فیصد آرمی چیف کے اس بیان سے اتفاق ہے کہ مسائل حل کرنے کے لیے قومی اتفاق رائے ناگزیر ہے لیکن ملین ڈالر سوال ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کون کرے گا قومی سیاسی لیڈر شپ کو اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہیں آتا انائیں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں ہر کوئی چوبارے پر بیٹھ کر بات کرتا ہے نیچے اتر کر بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں حضور انھیں بٹھانا پڑے گا ورنہ یہ ملک کو وہاں لے جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہ رہے گی خدارا کسی حادثے کا انتظار کیے بغیر یا آخیر دیکھے بغیر انھیں بٹھا لیں ضدیں تباہ کر دیتی ہیں دونوں فریقین کی انائیں متاثر کیے بغیر کوئی درمیانی راستہ نکال لینا چاہیے ہمیں آرمی چیف کے بیان سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا محسوس کر رہی ہے اللہ کرے کہ جلد کوئی حل نکل آئے اور عدم استحکام کی سولی پر لٹکی ہوئی قوم کو سولی سے اتار لیا جائے بقول منیر نیازی۔

کِس دا دوش سی کِس دا نئیں سی

ایہہ گلّاں ہُن کرن دیاں نئیں

ویلے لنگھ گئے توبہ والے

راتاں ہَوکے بھرن دیاں نئیں

جو ہویا ایہہ ہونا ای سی

تے ہونی روکیاں رُکدی نئیں

اِک واری جدوں شروع ہو جاوے

گل فیر اینویں مُکدی نئیں

کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن

کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی

کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن

کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

ہمیں اس بحث سے اب نکل آنا چاہیے کہ پی ڈی ایم نے کیا کیا۔ تحریک انصاف کا کیا قصور تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کس کے ساتھ کیا کیا ہے جس کا جو بھی کردار تھا یا تو اس پر ایک سچائی کمشن بنا کر ملک کو اس نہج تک پہنچانے والوں کا تعین کر کے انھیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے یا پھر حسب روایت اس پر مٹی ڈال کر آگے بڑھا جائے اور ملک کو دلدل سے نکالا جائے کچھ ہمارے صحافی دوست آج کل جنرل قمر جاوید باجوہ کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں کہیں یہ پرائی شادی میں عبدللہ دیوانے تو نہیں بدقسمتی اس ملک کی یہ بھی ہے کہ یہاں غیر جانبدار ذرائع ناپید ہو چکے ہر کوئی اپنی اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے لگا ہوا ہے یا مخالف کمپنی کو ڈمیج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے میری ان دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ ذرا یہ بھی پتہ کر لیں کہ رجیم چینج کے لیے کس کے کیا معاہدے طے ہوئے تھے نئے آرمی چیف کے لیے کس پر کیا دباو تھا لگتا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری پر عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں ایک پیج پر تھے ہمارے ہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا شوق غالب ہے اور یہی شوق ہمیں تباہی کے دھانے پر پہنچا چکا ہے