Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
570

میرا معاشرہ

کل میری ایک بزرگ انسان کے ساتھ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا بابا جان، آپ اپنی جوانی میں سب سے زیادہ کیا مس کر رہے ہو؟ بابا جی تھوڑا سوچتے رہے اور بتایا کہ میں سب سے زیادہ وہ وقت یاد کر رہا ہوں، جب ہم اپنے گھر میں ہوتے تھے اور اچانک باہر سے کوئی بڑی عمر کا انسان آتا تھا تو ہم جلدی سے اٹھ کر اسکو جگہ دیتے تھے اور ان سے پرانی کہانیاں سنتے تھے اور ان کے سامنے بہت زیادہ عزت کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ ان بزرگ انسان کی باتیں آج میں جب اپنے معاشر ے کے ساتھ ملا کے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگ نہ جانے کونسی مخلوقات میں آتے ہیں، ہم اپنے بچوں کوپیدا کر کے چھوڑ رہے ہیں، انہیں دین، دنیا کے دستور نہیں سکھا رہے۔

میرے معاشرے میں جب کسی غریب سے چھوٹی سی غلطی ہوجائے تو ہم نہ جانے اس بیچارے کو عجیب و غریب قسم کے باتیں سنا دیتے ہیں، حالانکہ یہ بات ہم انہیں پیار سے بھی سمجھا سکتے ہیں، ہمارے بچے ہمین رول ماڈل بنا کر ہم سے سیکھتے ہیں، جب ہم خود گالم گلوچ کریں گے تو ہمارے بچے بھی یہی کچھ سیکھ کر جوان ہونگے جس سے معاشرے میں اخلاقی تباہی آئے گی۔ لوگ اپنے آپ کو دور جدید کے طریقے سکھانے کیلئے سب سے زیادہ جھوٹ اور گالیاں استعمال کر رہے ہیں جو آنے والی نسلوں کیلئے مکمل تباہی کا سبب بن سکتیں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں اگر لوگوں کو کہو کہ جھوٹ کیوں بولتے ہو؟  تو آگے سے جواب ہوتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر ہمارا کاروبار نہیں چل سکتا، حالانکہ یہ ظاہری طور پر اچھا لگتا ہے لیکن آخرت کی زندگی اس سے تباہ ہوجاتی ہے، ہم یہ بھول گئے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رض جو اس وقت دنیا کے سب سے امیر تین انسان تھے انکی تمام دولت کمانے میں ایک جھوٹ بھی شامل نہیں تھا۔

میرا موجودہ معاشر گالیاں، بد عنوانی، بد نیتی، جھوٹ اور دھوکا بازی کا عادی بن چکا ہے اور سراسر تباہی کی جانب جا رہا ہے، میں ہر جگہ جھوٹ دیکھتا ہوں، جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، اگر ہم نے اپنے معاشرے سے جھوٹ ختم نہ کیا تویہ معاشرہ برائی میں ڈوب جائے گا ہمیں اس کو ان تمام بد عنوان چیزوں سے بچانا ہوگا اور یہ کام تبھی ممکن ہے جب بچوں کی پیدائش کے وقت سے ہی تربیت دینے کا پروگرام شروع کیا جائے۔ اللّٰہ ہمارا حامی و ناصر ہو،

تحریر : فضل ہادی 

اپنا تبصرہ بھیجیں